نواز شریف کیا چاہتے ہیں؟

بدھ 5 جولائی 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ ہے وقت گزر جاتا ہے۔ اچھا ہو یا برا ، خوب ہو یا ناخوب ، کٹھن ہو یا سہل، وقت گزر جاتا ہے۔ ہر حال کو ماضی ہونا ہے۔ ہر مستقبل کو حال بننا ہے۔ یہ بھی وقت کا اعجاز ہے کہ ساعتیں گزر جاتی ہیں اور کچھ لمحے تھم جاتے ہیں۔

یہی ملک تھا، یہی عوام تھی، اسی طرح کی عمارتوں میں عدل کا بازار سجتا تھا، احتساب کا کاروبار سجتا تھا۔ اس زمانے میں تیغِ عتاب کا نشانہ نواز شریف تھے۔ نواز شریف کا نام لینے والے تھے۔ نواز شریف کے اہل خانہ تھے۔ اس وقت تین دفعہ کے وزیر اعظم کا نام لینا منع تھا۔

ٹاک شو میں نواز شریف کا نام لیتے تو بے ضمیر اینکر اور زر خرید تجزیہ کار چھت سے جا لگتے، کرپشن سے کفر تک ہر قصہِ کج کا عنوان نواز شریف کا نام تھا۔ ڈان لیکس ملک کا سب سے بڑا واقعہ قرار پایا۔ پاناما اقوام عالم کا متفقہ فیصلہ قرار دیا گیا۔ جمہوریت پسند، وطن دشمن کہلائے۔ آزادیِ اظہار مانگنے والے معتوب ٹھہرائے گئے۔

میڈیا کی آنکھوں میں خون اتارا گیا، عدلیہ کو اپنی مرضی سے چلایا گیا۔ وہ عمران خان کا وقت تھا جس میں وہ امریکا جا کر نواز شریف کے کمرے کا اے سی اتارنے کا نعرہ لگاتے، صحافیوں کو غائب کرواتے، ایک پیج کی تال پر ناچتے گاتے تھے۔ وہ وقت گزر گیا۔ وقت گزر ہی جاتا ہے۔

اب وقت بدل گیا ہے۔ اب عمران خان عتاب کی شمشیر برہنہ کی زد پر ہیں۔ اب ان کا نام لینا جرم ہے۔ اب وہ فاسق، جمہوریت کش، کرپٹ، وطن دشمن اور جانے کیا کیا کہلائے جا رہے ہیں۔ اس میں خان صاحب کی اپنی کاوشوں اور کوششوں کا دخل بھی بہت ہے۔ اگر 9مئی نہ ہوتا تو آج بھی سہولت کار جان نثار کرنے کو تیار تھے۔ عدالتیں انصاف کو مٹی میں ملا کر ضمانتیں دینے پر بضد تھیں۔ سوشل میڈیا کی گالم گلوچ میں تندی آ چکی ہوتی۔ الیکٹرانک میڈیا میں چھپے انصافی اب بھی اپنے تئیں صحافت کر رہے ہوتے اور نواز شریف کے خاندان پر تبرے بھیج رہے ہوتے۔ لیکن خان صاحب سے 9مئی کی فاش غلطی ہو گئی۔ اس کے بعد وہ اذیت ناک و المناک ساعتیں تو گزر گئیں مگر وہ لمحے عوام اور ادارے  کی نگاہوں میں تھم گئے۔ اس کے بعد وقت نے جیسے قلابازی کھائی۔ سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ خان صاحب کا قصرِ خواہشات ایک آن میں زمین بوس ہو گیا۔ اب خان صاحب کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ بے وزن دلیلیوں اور بے سود تاویلوں کے سوا ان کے کشکول میں کچھ بھی نہیں۔ انہیں شاید احساس نہیں کہ وضاحتوں کا وقت بیت گیا۔ جواز پیش کرنے کا لمحہ گزر گیا۔ اب دلیل و تاویل کا کوئی موقع نہیں رہا۔ اب بہت سا پانی پلوں تلے بہہ چکا۔

اب وقت نے عجیب کروٹ لی کہ وہ نواز شریف جن کا نام لینے پر پابندی تھی وہ دوبئی میں بیٹھے سب فیصلے کر رہے ہیں۔ اب عنانِ وقت اُن کے ہاتھ میں ہے۔ نواز شریف نہ صرف فیصلے کر رہے ہیں بلکہ  ملکی معیشت کے مستقبل کے حوالے سے بھی مذاکرات میں مشغول ہیں۔ خبریں آ رہی ہیں کہ دوبئی کے شیوخ، عرب تاجران سے بات چیت اختتامی مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے پر غور ہو چکا ہے، اشیائے صرف کی قیمتوں کو قابو کرنے پر بات ہو چکی ہے۔ دوست ممالک کو مدد کے لیے پکارا جا چکا ہے۔ خزانے پھر سے معمور کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ اب وقت بدل گیا ہے۔

نواز شریف کے ہر انداز سے یہ لگ رہا ہے کہ وہ چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کو تیار ہیں۔ کوئی دن ہے کہ وہ وطن واپسی کا ٹکٹ کٹائیں گے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا فقید المثال استقبال ہو۔ وہ ایک ایسی شخصیت کی طرح میدان میں  نہ اتریں کہ جس کی جماعت کی حکومت ہے اور لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں۔ وہ ایک ایسے سیاسی قائد کی طرح میدان سیاست میں اتریں کہ جس کے ہاتھ میں ترقی کی کنجی ہے۔ عوام کی فلاح کا فارمولہ ہے۔ جس کو اس ملک اور اس سماج کی سیاست کے سب سبق یاد ہیں۔ جس نے تین دفعہ اقتدار دیکھا اور ایک دفعہ پھر عوام کی امید کا استعارہ بن کر وہ وزارتِ عظمیٰ قبول کرنے کو تیار ہیں۔

نواز شریف بہت خوش امید ہیں۔ اب تک سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ سب باتیں ان کی مانی جا رہی ہیں۔ سب فیصلے ان کی مشاورت سے ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ سے لے کر عدلیہ تک سب کے دل موم ہو چکے ہیں۔ سب کو معیشت کی فکر پڑی ہے، سب جانتے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے پیپلز پارٹی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام سے ملک نہیں چلایا جا سکتا۔  نواز شریف اب چاہتے ہیں کہ ہر جماعت کو اس کے قد کے برابر حکومت میں حصہ ملنا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب جیتنے والی جماعت کو پانچ سال حکومت کرنے دی جائے۔ اب راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو پیچھے ہونا پڑے گا۔ اب جمہوری حکومتوں کے خلاف افواہ ساز فکیٹریوں کو بند کرنا پڑے گا۔ ہر منتخب کے خلاف سازشوں کو ختم ہونا ہو گا۔ وہ بہت قربانی دے چکے ہیں۔ سیاست میں بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ اب ان کی خواہش ہے کہ اس ملک کے طرزِ سیاست کو بدلنا ہو گا۔

نواز شریف کی خوش امیدی اپنی جگہ مگر اس سماج میں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پہلے بھی ایسا تین بار ہو چکا ہے۔ پہلے بھی خزانے کو بھرنے کی ذمہ داری ان کو دی جا چکی ہے۔ لیکن پھر اچانک وقت بدل جاتا ہے۔ گو کہ اب اس تغیر کا متحمل نہ ملک ہو سکتا ہے، نہ معاشرہ اور نہ ہی ادارہ۔  اس کے باوجود نواز شریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ ڈوبتی معیشت کی نیا پار لگائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے اس وقت ووٹ کی عزت کے نعرے سے سبکدوش نہیں ہوا جا سکتا۔

وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ  وقت گزر جاتا ہے۔ شخصیات کا سحر معدوم ہو جاتا ہے، عہد بیت جاتے ہیں  لیکن نظریات باقی رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp