آخر مغربی دنیا میں رسول مہربان صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی اہانت کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سوال ایک طویل عرصہ سے میرے ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ مجھے ان بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب ایک ہی سمجھ آتا ہے اور میری دانست میں حل بھی ایک ہی ہے۔ سبب کیا ہے اور حل کیا ہے؟ آیے ! جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا میں مجموعی طور پر 195 ممالک ہیں، قریبا 50 مسلمان حکومتیں ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب 80 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اگر اس دنیا کی کل آبادی 100 افراد پر مشتمل ہو تو اس میں مسلمان 25 ہیں، عیسائی 32، ہندو 15، بدھ مت والے 7 جبکہ غیر مذہبی لوگوں کی تعداد 15 ہوگی۔ 100 کی شرح میں یہودی ایک بھی نہیں ہے۔ دنیا کی یہ تصویر معروف امریکی تھنک ٹینک’ پیو ریسرچ سنٹر’ نے ایک جائزہ رپورٹ کی صورت پیش کی ہے۔
انسانوں کے مذکورہ بالا گروہوں میں عظیم الشان اکثریت ان لوگوں کی ہے جو پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہیں۔ اس دنیا میں ایک دوسرے سے نفرت کا جذبہ رکھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے جبکہ شدید نفرت کرنے والے اور بھی کم ہیں۔ سوال مگر وہی ہے کہ ایسے میں رسول مہربان صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی اہانت کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
اس سوال کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ مسلمان انہیں روکنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے ہیں۔ جو ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوشش کرتے ہیں، ان کی سمت ہی غلط ہے۔ زیادہ تر مسلمان اپنی جگہ بیٹھے دل میں ایک درد سا محسوس کرتے ہیں لیکن خاموش رہتے ہیں۔ وہ ایمان کی کمزور ترین نشانی ہی کو اپنی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ ترکی یا ایسے ہی کچھ دیگر معاشروں میں لوگ بڑی تعداد میں بڑے احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں تاہم ایسا چند ہی معاشروں میں ہوتا ہے۔ رہی بات ہم پاکستانیوں کی، ہمارا طرزاحتجاج عجیب سا ہے۔
ہمارے ہاں مظاہرین سب سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر، نعرہ توحید اور نعرہ رسالت بلند کرتے ہوئے راستے بند کرتے ہیں، پھر ٹائر جلاتے ہیں اور ماحول کو بدترین انداز میں آلودہ کرتے ہیں۔ گزرے برسوں میں ایسے احتجاجی افراد نے سرکاری اور عوامی املاک کو بھی توڑا پھوڑا۔ مجھے اس ٹائر جلانے اور توڑ پھوڑ کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اس کے نتیجے میں دنیا میں توہین رسالت اور توہین قرآن کے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ اس سے توہین رسالت کے مجرموں کا کیا بگڑسکتا ہے؟
7جولائی2023 کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ‘یوم تقدیس قرآن’ کے عنوان سے احتجاج کا اعلان کیا۔ ہر شہر میں احتجاج ہوا۔ بعض شہروں میں احتجاج کا آغاز سڑکیں بند کرنے اور ٹائر جلانے ہی سے ہوا۔ تاہم شکر ہے کہ اس قسم کے واقعات اکا دکا ہی تھے۔
احتجاج کرنے والوں کے جذبہ ایمانی پر سوال نہیں ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جلاؤ گھیراؤ والے احتجاج سے نتائج کیا حاصل ہوتے ہیں؟سویڈن ہو یا ناروے یا پھر فرانس، انہیں پاکستان میں بند ہونے والی سڑکوں سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ پاکستان میں ٹائر جلیں گے تو سویڈش یا فرانسیسی حکمرانوں کی سانسوں میں آلودگی شامل نہیں ہوگی۔ پاکستان میں مظاہرین اپنے ہی ملک کی سرکاری اور عوامی املاک توڑیں پھوڑیں گے، اس کا نقصان بھی سویڈن، ناروے اور فرانس کی حکومتوں نے برداشت نہیں کرنا، پاکستانی قوم ہی کو یہ نقصان پورا کرنا ہے۔
پاکستان میں ہمیشہ اسی انداز میں احتجاج کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے فرانس میں توہین رسالت کی گئی، اس سے پہلے ناروے میں اہانت کا واقعہ ہوا۔ پاکستان میں اس کے خلاف احتجاج کے عنوان سے کیا کچھ ہوا؟ ذرا ریکارڈ کھنگال لیں، آنکھیں کھول دینے والے حقائق دیکھنے کو ملیں گے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ اس قسم کا احتجاج صرف مذہبی جماعتیں ہی کرتی ہیں، سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے احتجاج کے ذریعے ملک اور قوم کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔ بلکہ زیادہ بڑے نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ حال ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے کارکنان نے جس قسم کا احتجاج کیا، اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو 6ارب روپے کا نقصان ہوا، اس سے پہلے 2014 میں تحریک انصاف ہی نے دھرنے دیے تھے، احتجاج کیا تھا، اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو 7کھرب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ اس معاشی نقصان کے اثرات فرانس، ناروے اور سویڈن کے عوام پر مرتب نہیں ہوں گے، پاکستانی قوم ہی کی زندگی ابتر ہوگی۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل ہوئی تھیں تو کم از کم 7ریلوے اسٹیشن جلا دیے گئے تھے اور متعدد ٹرینیں نذر آتش کردی گئی تھیں۔ بینک لوٹے گئے، پھر انہیں آگ لگا دی گئی، صرف سرکاری گاڑیاں ہی نہیں عام لوگوں کی گاڑیاں بھی جلا دی گئی تھیں۔ اس روز پیپلزپارٹی والوں نے جس بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی اور سرکاری اور عوامی املاک کو نذر آتش کیا، اس کی تفصیل نہایت طویل اور شرمناک ہے۔ تاہم ملکی معیشت کو پہنچنے والے اس نقصان کا حساب کتاب کبھی پیپلزپارٹی والوں نے نہیں کیا۔
بڑے سیاسی گروہوں کا المیہ ہے کہ جب وہ خود برسراقتدار ہوتے ہیں تو قوم سے خطابات میں، اپنے بیانات میں ایسے بدترین احتجاج کے خلاف نہایت فکرانگیز خیالات کا اظہار فرماتے ہیں تاہم جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے خیال میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ پر فخر و انبساط محسوس کرتے ہیں۔ صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی کی ایسی ہی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جب تحریک انصاف کراچی کے پردھان ہوتے تھے، جلاؤ گھیراؤ کراتے ہوئے ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ پھر 2018 میں وہی عارف علوی صدرملکت بن گئے۔ اب ان کی خواہش تھی کہ ان کے لیڈرعمران خان کی حکومت میں کوئی فرد احتجاج نہ کرے۔
مقام فکر وہی ہے کہ اس قسم کا احتجاج کرکے، اپنا ہی نقصان کرکے ہم اصل مجرموں کا کیا بگاڑ لیتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ ہم جن کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، وہ ہمارا طرز احتجاج دیکھ کر ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔
سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی پر ایک منفرد ’احتجاج‘ انڈونیشیا کے مسلمانوں نے کیا۔ وہ قرآن مجید لے کر مختلف شاہراؤں کے کنارے بیٹھ گئے اور تلاوت کرتے رہے۔ غیر ملکی میڈیا نے اس منفرد ’احتجاج‘ کو خوب نمایاں کیا۔
میری دانست میں توہین کے ایسے واقعات کو روکنے کی اور واحد موثر تدبیر مغرب میں رہنے والوں کو سمجھانا ہے کہ وہ پرامن بقائے باہمی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ہاں’آزادی اظہار رائے‘ کے نام پر دوسروں سے نفرت کا اظہار کرنے والوں کو روکیں۔ سوشل میڈیا ایکٹویسٹس بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مغربی اقوام کے ایک ایک فرد تک یہ پیغام کیسے موثر انداز میں پہنچانا ہے۔
مغربی اقوام کو سمجھانا ضروری ہے کہ اس دنیا کو لڑائی جھگڑوں کے بجائے محبت اور امن کے ذریعے خوبصورت بنایا جائے۔ کسی فرد کو اجازت نہ دی جائے کہ وہ دوسروں سے نفرت کا اظہار کرے۔