پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کے جج کے اس فیصلے سے کہ معاملہ قابلِ سماعت تھا، تعصّب اور بدنیتی واضح ہیں کہ الزام میرے سر تھونپا جائے اور انصاف کے اصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے مجھے خطاوار قرار دیا جائے۔
توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کے جج کے اس فیصلے سے کہ معاملہ قابلِ سماعت (Maintainable) تھا، تعصّب اور بدنیّتی واضح ہیں کہ الزام میرے سر تھونپا جائے اور (نہایت عجلت میں تقاضہ ہائے عدل سے روگردانی کرتے ہوئے کئے گئے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے) مجھے خطاوار قرار دیا جائے۔
اوّل تو…
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) July 9, 2023
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ اوّل تو ہائیکورٹ کی جانب سے اس اعلان کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری نظرِ ثانی کی استدعا منظور کرلی گئی ہے، کے ذریعے میرے وکلا کو گمراہ کیا گیا مگر جب تحریری حکم نامہ آیا تو معاملہ ازسرِنو کارروائی کے لیے پھر سے انہی جج صاحب کو بھجوا دیا گیا جو پہلے ہی ہمارے خلاف فیصلے کی صورت میں اپنی سوچ واضح کرچکے تھے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ میری درخواست پر فیصلے کے لیے ٹرائل کورٹ کو 7 یوم کی مہلت دی گئی اور میرے وکیل نے معاملے کو پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی مگر اس حقیقت کے باوجود کہ ’معاملے پر ہائیکورٹ کے اس حکمنامے کو‘ سپریم کورٹ کے روبرو چیلنج کیا جاچکا ہے جہاں اسے نمبر بھی لگ چکا ہے اور 7 روز کی مہلت ختم ہونے سے قبل اس کی عدالت عظمیٰ میں سماعت کے امکانات بھی روشن ہیں، میرے وکیل کو سماعت کا موقع دیے بغیر نہایت عجلت میں 3 ہی روز میں فیصلہ صادر کر دیا گیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس سے بھی بڑھ کر دلچسپ تو یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ کے ان جج صاحب کے خلاف تعصّب کی بنیاد پر ہماری جانب سے دائر کی گئی درخواست پر غور کیا گیا اور نہ ہی کوئی فیصلہ کیا گیا بلکہ فی الواقع میری قانونی ٹیم کو سماعت کا موقع دیے بغیر ہی تمام معاملات نمٹائے جارہے ہیں جو کہ کسی بھی مقدمے پر منصفانہ کارروائی اور فطری انصاف کے اصولوں سے صریح انحراف ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان سب واقعات و حقائق سے میرے خلاف تعصّب اور جانبداریت کا ایک واضح سلسلہ کھل کر سامنے آتا ہے جس کی بنیادوں میں یہ ہدف پوشیدہ ہے کہ مجھے نااہل قرار دیا جائے اور ملکی سیاست سے باہر رکھا جائے۔
واضح رہے کہ 8 جولائی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس میں ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔
سماعت کے دوران عمران خان کے سینیئر وکیل خواجہ حارث کی عدم موجودگی پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ حارث سینیئر وکیل ہیں، ان سے اس طرح کا رویہ نہیں توقع کیاجاسکتا، جج نے کہا توشہ خانہ کیس پر ہر پاکستانی کی نظر ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن عدالت کو اس مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں 7 دن میں فیصلہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
یہ بھی واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کو 7 روز میں فیصلہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے سے متعلق فوجداری مقدمہ درج ہے۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی سابق وزیراعظم کو اثاثوں میں توشہ خانہ کے تحائف چھپانے پر ڈی سیٹ کر چکا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 137 اور 170 کے تحت فوجداری مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔ توشہ خانہ کیس میں جرم ثابت ہونے کی صورت میں تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔