سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواست پر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔
سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر تے ہوئے کہا کہ ملک میں ہر ایک فکر مند ہے کہ سویلینز کو کیسے آرمی ایکٹ کے سخت مدار سے گزارا جائے گا، آرمی ایکٹ ایک سخت قانون ہے، درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، اب اٹارنی جنرل آپ نے تمام سوالات کے جوابات دینے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے، تمام ججز کی دل سے عزت اور ان کے مؤقف کو احترام سے دیکھتا ہوں۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تمام ججز پر مشتمل بنچ بنانا تکنیکی بنیاد پر ہی ممکن نہیں، تین ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ، کچھ ججز ملک میں نہیں ہیں،جسٹس اطہر من اللہ ملک سے باہر ہیں،آپ میرے بھائی یحییٰ کی گریس دیکھیں، انہوں نے بینچ تشکیل کرنے کے بجائے عدالت کی توقیر اور اعتماد کی بات کی، میں نے بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اس کے باوجود کہ یہ کیس کافی حد تک سنا جا چکا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جب بینچ بنایا تب تمام ججز سے مؤقف لیا اور دستیاب ججز پر بینچ بنایا، کیس کے پہلے دن 2ججز نے اپنی وجوہات پر کیس سننے سے معذرت کی۔
’ تعجب ہوا جب وفاق نے آ کر ایک جج پر اعتراض کیا، جسٹس منصور نے اپنی وجوہات پر کیس سننے سے معذرت کی، عوامی مفاد کے کیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا، بینچ 9ججز سے کم ہو کر 6ججز پر رہ گیا، خوشی ہوئی کہ فوجی تحویل میں افراد کو ان کے اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی، اس کیس میں آئینی سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لطیف کھوسہ نے شروع میں ہی کہا تھا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں، ہر کوئی تسلیم کرات ہے کہ 9مئی کے واقعات سنجیدہ نوعیت کے تھے، فل کورٹ کی درخواست پر ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے،فی الحال فل کورٹ بنانا ممکن نہیں، ہم آپ کو تفصیل سے سننے کے لیے وقت دیں گے۔
عدالت نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔