9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، پارٹی قیادت اور کارکنان کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے اور وفاداریاں تبدیل کرنے پر مبینہ طور مجبور کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف عمران خان دورِ حکومت میں ان کے داستِ راز اور اعلی انتظامی عہدے یعنی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے افسر اعظم خان عمران خان سے قربت کی وجہ سے مشکلات دوچار تھے اور اب اچانک عمران خان کے خلاف ان کے بیانات نے ملکی سیاست کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی خیبر پختونخوا میں چیف سیکرٹری رہنے والے اعظم خان کو وزیرِاعظم ہاؤس میں اعلیٰ عہدے دیا تو انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
اس تعیناتی پر بیوروکریسی کے سرکل میں تحفظات نے تو جنم لیا ساتھ تحریک انصاف کے اندورنی حلقے بھی اس اہم تعیناتی سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھے کیونکہ اعظم خان کئی اسکینڈل کی زد میں بھی رہے تھے۔
اعظم خان پر تنقید، الزامات اور اسکینڈل پر ذرا اگے چل کر بات کرتے ہیں لیکن پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عمران خان دورِ حکومت میں وزیرِاعظم ہاؤس میں طاقت اور اہم فیصلوں کا محور سمجھے جانے والے اعظم خان ہیں کون اور وہ کونسے اہم عہدوں پر تعینات رہے؟
اعظم خان کون ہیں؟
گریڈ 22 کے افسر اعظم خان خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ یوسفزئی پختوں قبیلے کے ایک متوسط زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ابیٹ آباد میں پاکستان آرمی کے زیرِ نگرانی مشہور تعلیمی ادارے برن ہال boarding اسکول اینڈ کالج میں داخلہ لیا۔ جس کے بعد قائدِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
امتیازی نمبروں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعظم خان نے سول سروس میں شمولیت کا ارادہ کیا اور مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کردی اور 1990 میں مقابلے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جس کے بعد انہیں ڈی ایم جی اور موجودہ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس گروپ allocate کیا گیا۔
سول سروس میں شمولیت کے بعد اعظم خان کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی اور نہ ختم ہونے والی کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سروس میں شمولیت کے بعد ان کی تعیناتی پنجاب میں ہوئی اور اس کے بعد ان کی خدمات خیبر پختونخوا کو دی گئی اور اس دوران وہ ڈپٹی کمشنر سے لے کمشنر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور چیف سیکرٹری کے پی تعینات رہے۔
عمران خان سے قربت کیسے ہوئی؟
2013 کے عام انتخابات میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آئی تو تبدیلی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عمران خان نے اپنی تمام تر توجہ پختونخوا پر موکوز رکھی اور ہر دوسرے دن پشاور میں وزرا اور انتظامی سیکرٹریز کے ساتھ اصلاحات کے ایجنڈے پر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تھے۔
بس انہی میٹنگز میں اعظم خان ان کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اعظم خان حسبِ عادت وزیراعلی اور دیگر وزرا کی موجودگی میں عمران خان کو صاف اور حقائق پر مبنی بات کرتے تھے اور حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرتے تھے اور ان کی اس عادت سے وزرا خوش نہیں تھے مگر اس عمل کے ذریعے عمران خان سے ان کی قربت بڑھ گئی۔
سیکرٹری سیاحت سے چیف سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری تک کا سفر
عمران خان سے قربت کی وجہ سے پرویز خٹک دور میں اعظم خان کو خاص اہمیت دی گئی اور وہ اہم انتظامی عہدوں پر تعینات رہے۔ وہ سیکرٹری سیاحت، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی ریفارمز متعارف کرائے۔
پشاور سے سینیئر صحافی عبدالرحمٰن کے مطابق اعظم خان نے صوبے میں سیاحت کے فروغ کے لیے اہم کام کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب کوئی سیاح صوبے میں آنے کو تیار نہیں تھا، تب اعظم خان نے مذہبی سیاحت کو متعارف کروایا۔
انہوں نے بتایا کہ مذہبی سیاحت کے تحت بڑی تعداد میں بدھ مت کے پیروکاروں نے مشکل وقت میں پختونخوا کا رخ کیا۔ عمران خان کے تبدیلی ایجنڈے پر خصوصی دلچسپی لینے اور بولڈ فیصلے لینے پر انہیں پرویز خٹک دور میں سال 2017 میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا تعینات کیا گیا اور پھر وفاق میں حکومت بنانے کے بعد انہیں عمران خان نے اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کیا۔
اعظم خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے قریبی ساتھیوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی اہم عہدے پر ان کی تعیناتی ہوئی وہ اپنے پسندیدہ اور قابل بروسہ افسران کو ساتھ لیکر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں تعیناتی کے بعد وہ صوبائی کیڈر کے کچھ افسران کو وزیراعظم ہاؤس لے گئے تھے۔
‘اعظم خان وزیرِاعظم ہاؤس سے صوبے کو چلا رہے تھے’
خیبر پخیونخوا میں چیف سیکرٹری رہنے والے اعظم خان وزیرِاعظم ہاؤس تعیناتی کے بعد بھی صوبے کے معاملات کو دیکھتے تھے۔ صوبے میں تعینات افسران کے مطابق صوبے میں اکثر تعیناتی اور تبادلے ان کی مرضی کے مطابق ہوتے تھے۔
مالم جبہ اسکینڈل پر نیب ریڈار میں آئے تھے
اعظم خان جب سیکرٹری سیاحت تھے تب مالم جبہ ریزورٹ پر کام ہوا تھا اور لیز کی منظوری ہوئی تھی۔ جس کے باعث وہ نیب تحقیقات کی زد میں بھی آئے تھے۔ نیب کے مطابق مالم جبہ میں محکمہ جنگلات کی 270 ایکڑ اراضی قوائد کے خلاف لیز پر دی گئی تھی۔ اسی اسکینڈل میں وہ نیب میں پیش بھی ہوئے تھے اور الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام
عمران خان سے قربت کی وجہ سے اعظم خان کو عمران خان دور میں وزیراعظم ہاؤس میں طاقت کا محور سمجھا جاتا تھا اور اس وقت کے پارٹی قائدین اور بااثر وزرا بھی ان کے خلاف کُھل کر بولتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کابینہ اجلاس میں بھی اہم امور پر اعظم خان کُھل کر بولتے تھے اورعمران خان کے سینیئر اور اہم وزرا بھی ان کے سامنے خاموشی اختیار کرتے تھے۔
جہانگیر ترین شوگر اسکینڈل اور اعظم خان
عمران خان کے اے ٹی ایم سمجھے جانے والے جہانگیر ترین کا نام چینی اسکینڈل میں آنے کے بعد جب انہیں حکومتی زرعی ٹاسک فورس سے ہٹایا گیا تو جہانگیر ترین پہلی بار کُھل کر اعظم خان کے خلاف بول پڑے اور اپنے خلاف کارروائی کا ذمہ دار اعظم خان کو قرار دیا۔ جہانگیر ترین نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف جو بھی ہوا وہ اعظم خان نے کیا۔
اعظم خان پر صرف جہانگیر ترین نے الزمات نہیں لگائے بلکہ اس وقت کے دیگر قائدین بھی الزامات لگاتے تھے۔ خیبر پختونخوا سے ہی تعلق رکھنے والے سابق چیف سیکرٹری اور اس وقت عمران خان کے مشیر شہزاد ارباب نے بھی اپنے ہی جونیئر افسر کے خلاف الزامات عائد کیے تھے۔ پشاور کے بااثر ارباب خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزاد ارباب کو مشیر کے عہدہ سے ہٹایا گیا تو انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ اس فیصلے کے پیچھے اعظم خان کا ہاتھ تھا۔
اس وقت کے مشیر اطلاعات عاشق فردوس اعوان نے بھی کہا تھا کہ اعظم خان نے انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینے کے لیے کہا ہے جو ان کا اختیار نہیں ہے۔ اگرچہ کابینہ رد و بدل میں پرنسپل سیکرٹری کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود بھی اعظم خان یا وزیرِاعظم ہاؤس کی جانب سے ان الزمات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
شہباز شریف دور میں اعظم خان مشکلات میں
عمران خان دور میں اعظم خان پر سیاسی معاملات میں مداخلت اور دیگر اہم فیصلوں میں عمران خان کو گمراہ کرنے کے الزامات لگتے رہے تاہم عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی مشکلات مزید بڑھ گئیں۔ نئی حکومت نے ان کی world bank میں تعیناتی کو منسوخ کیا اور گزشتہ ایک سال سے وہ او ایس ڈی ہیں۔
عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی افواہیں
گزشتہ ماہ اعظم خان اسلام آباد میں جب اپنے کسی دوست سے ملاقات کے بعد واپس نہیں لوٹے تو اہلِ خانہ نے ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی تھی۔ اہلِ خانہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے موبائل بند ہیں اور ان سے رابطہ نہیں ہو رہا ہے۔ اعظم خان کی گمشدگی کے بعد گزشتہ کچھ دنوں سے افواہیں گردش کررہی ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف ہوگئے ہیں اور کسی بھی وقت سیاستدانوں کی طرح پریس کانفرنس کرسکتے ہیں۔