واشنگٹن پوسٹ کی روایت پر چلیں

جمعہ 21 جولائی 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تقریباً 40 سال پہلے جینٹ لیسلی کک  واشنگٹن پوسٹ سے بطور انوسٹیگیٹیو جرنلسٹ  وابستہ تھی۔ اسے چونکا دینے والی خبروں کی تلاش میں بہت مہارت حاصل تھی۔

جینٹ لیسلی کک کے قارئین بے چینی کے ساتھ اس کی نئی اسٹوری کے منتظر رہتے اور وہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی کہانی سامنے لے آتی۔

انہی دنوں واشنگٹن پوسٹ میں ’جمی زورلڈ‘ کے نام سے جینٹ لیسلی کک کی ایک اسٹوری چھپی۔ جس میں اس نے آنڈریا واشنگٹن میں مقیم ایک 8 سالہ بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ ہیروئن کے نشے کا عادی ہے، مزید یہ کہ بچہ (جمی) اپنی ماں اور اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتا ہے اور وہ دونوں خود بھی نشے کے عادی ہیں۔

نیوز اسٹوری میں بتایا گیا تھا کہ جمی کو 5 سال کی عمر میں اپنی ماں کے بوائے فرینڈ نے نشے پر لگایا اور وہ گزشتہ 3 سال سے نشے میں مبتلا ہے ۔

اس سٹوری نے ایک طرف امریکا کی سماجی اور اخلاقی زندگی کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری طرف جینٹ لیسلی کک راتوں رات مزید شہرت کے آسمان پر  پہنچی، لیکن واشنگٹن پوسٹ میں پبلک انکوائری آفیسر بل گرین کو شک پڑ گیا اور ساتھ ہی  کچھ اطلاعات ملیں تو اس نے جینٹ کک کی اسٹوری کے بارے میں انوسٹیگیشن شروع کی۔

چند دنوں بعد بل گرین نے اخبار انتظامیہ کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں اس اسٹوری کو مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ثابت کیا گیا تھا۔

اخبار انتظامیہ نے اسی دن جینٹ لیسلی کک کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ اسے دیے گئے تمام ایوارڈز بھی منسوخ کر دیے اور پھر وہ دن اور آج کا دن جینٹ لیسلی کک صحافت کی دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دی ۔

یہ طویل تمہید میں نے اس لیے باندھی کے اُن ملکوں کی کامیابی اور ترقی کے اہم رازوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں صحافت سچائی، پروفیشنلزم اور شدید محنت کی بنیادوں پر کھڑی ہے جو معاشرے کو صحیح راستہ دکھانے، موٹیویٹ کرنے اور خیر اور شر میں تمیز کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ جو جھوٹ، فریب، ظلم اور ناانصافی کو اُکھاڑ کر رکھ دیتی ہے، جس سے ایک فلاحی اور مبنی برانصاف معاشرے کا قیام وجود میں آتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے ہاں متضاد اور منفی رُخ میں سفر کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری صحافت ’رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی‘ والی صورتحال سے دو چار ہے،کیونکہ  مخصوص گروہوں کی اجارہ داری اور ذاتی مفادات نے نہ صرف پوری صحافت کو جکڑ رکھا ہے بلکہ اس سے تعمیری نتائج کے بجائے مسلسل منفی پروپیگنڈہ اور غلیظ ایجنڈے ٹپک رہے ہیں جو کسی طور تعمیری صحافت کے زمرے میں نہیں آتے۔

آپ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی بھی چینل دیکھیں تو  وہاں سالہا سال سے مخصوص چہرے ’اینکر اور سینیئر تجزیہ نگار‘ کا سرکس سجائے دکھائی دیں گے۔

معیار کم از کم یہ تو ہرگز  نہیں کہ مطالعے، مشاہدے اور طرز تحریر نے مواقع فراہم کیے، بلکہ معیار یہی ٹھہرا کہ ’مالکان‘ کے ساتھ روابط اچھے رکھیں اور پھر صبح وہ شام اول فول بکتے رہیں۔

اگر چہ بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو تصنیف و تالیف اور مطالعے کی بنیاد پر اس پیشے سے منسلک ہیں لیکن بدقسمتی سے عمومی طور پر ایسا نہیں، بلکہ سچائی اور خبر کے بجائے اپنے اپنے ایجنڈے سمیت ہر کوئی دانشور اور تجزیہ کار بن کر  ہمارے سر پر سوار ہے حالانکہ  روز روز جھوٹ ثابت ہونے کے باوجود بھی کسی کو ’جینٹ لیسلی کک‘ نہیں بنایا جاتا۔

 کسی تلخی کی طرف جانے کی بجائے وقت کے تیور اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چند تجاویز کی طرف جانا ہی بہتر بات ہوگی۔

اس وقت ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر جاری ڈرامے بازی کو نہ صرف عام لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ  سب سے زیادہ تنگ بھی اسی سے ہیں (کسی کو اس بات میں شک ہو تو بے شک سروے کروا کر دیکھ لے)، دوسری بات یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑےگا کہ الیکٹرانک میڈیا کارکردگی کے حوالے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے اور وقت کے تقاضوں (ایماندارانہ تفتیشی صحافت اور نئے آئیڈیاز کی تلاش) کے مطابق  چلنے کی بجائے چند افراد کی اہمیت کے گرد گھومنے رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ نیوز چینلز کو بند تو نہیں کیا جا سکتا اس لیے نئی قانون سازی ہی بہترین راستہ ہے جس کے تحت کسی بھی اینکر یا تجزیہ نگار کے لیے مہینے میں مخصوص وقت کا تعین کیا جائے یعنی اسکرین پر آنے کے لیے اتنے منٹس یا گھنٹے ہوں گے جب کہ باقی وقت نوجوان صحافیوں ،کالم نگاروں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو دیا جائے ۔

میں تو ذاتی طور پر اس بات کی حمایت کروں گا کہ دوسرے جابز اور اداروں کی مانند یہاں بھی سخت امتحان اور ٹیسٹ کا طریقہ لاگو کیا جائے، جو تجربے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور انداز تحریر سے بھی منسلک ہو۔ جس کا اہتمام وزارتِ اطلاعات اور میڈیا ہاوسز مشترکہ طور پر کریں۔

اس فیصلے سے ایک طرف  نئے لکھنے والوں اور گمنام صحافیوں کو مواقع بھی ملیں گے اور دوسری طرف مقابلے کی فضا اور  نئے آئیڈیاز کو راستہ بھی ملتا جائے گا۔ ساتھ ساتھ تحقیقی طرز تحریر، پروفیشنلزم اور محنت کو بھی معیار بنایا جائے اور اس کی مناسبت سے الیکٹرانک میڈیا پر وقت کی تقسیم کی جائے۔

اس اقدام کے ساتھ سوشل میڈیا بھی غُل غپاڑہ سے نکل کر راہ راست پر آتا جائےگا کیونکہ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو سوشل میڈیا پر مچی ہڑبونگ اصل میں الیکٹرانک میڈیا کا رد عمل ہی ہے،کیونکہ عام آدمی کے پاس جھوٹ اور بہتان طرازی کا جواب دینے کے لیے صرف سوشل میڈیا کا فورم ہی تو ہے۔

جب الیکٹرانک میڈیا پر نئے لوگ صحافتی اقدار کو لیے جدید آئیڈیاز کے ساتھ آئیں گے تو عوامی سطح پر اس کا اثر نہ صرف حد درجہ مثبت اور تعمیری ہوگا بلکہ مْعاشرے کو شعور اور بیداری بھی فراہم کرے گا۔

یہ کام کوئی اتنا مشکل بھی نہیں، بس قانون سازی کریں اور پیمرا کو مؤثر بنائیں، نتائج حیران کن اور خوشگوار ہی نکلیں گے۔ البتہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور رعب داب ہاتھ سے نکلیں گے تو کل ڈیڑھ درجن افراد (جعلی دانشوروں) کی چیخیں آسمان سر پر اُٹھالیں گی لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ’ماہرین تعلقات‘ اور حقیقی صحافت میں سے ایک ہی کا انتخاب کرنا ہوگا ورنہ اگر  صورتحال یہی رہی تو پھر مارکیٹ پر سائفر سیاست بھی چھائی رہے گی اور بو الہوسی آگ بھی لگاتی پھرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp