فلمیں کون نہیں دیکھتا؟ ہر کسی نے زندگی میں ایک نہ ایک فلم تو ضرور دیکھی ہوگی۔ فلم سازی ایک آرٹ ہے اور یہ آرٹ کہانی، منظر نگاری، اداکاروں کے انتخاب، عکس بندی، آواز کی ڈبنگ اور تدوین کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیے جانے پر مشتمل ہے۔
تقسیم کے بعد کئی سال پاکستان میں اچھی فلمیں بنائی جاتی رہیں، لیکن ضیاء آمریت نے جہاں دیگر فنون لطیفہ کا گلا گھوٹ کر رکھ دیا وہیں پاکستانی فلم انڈسٹری بھی اس کا ایسا شکار ہوئی کہ اب تک اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی۔
79ء اور 80ء کی دہائی میں انڈین فلم انڈسٹری خاص طور سے انڈین متوازی سنیما (آرٹ فلمیں) اپنے عروج پر تھا۔ کم بجٹ میں ہمارے معاشرے کی بھر پور عکاسی کرتے انوکھے اور چبھتے ہوئے موضوعات بارڈر کے دونوں جانب یکساں پذیرائی سمیٹتے تھے۔
میرا آج کا موضوع پاکستانی فلم انڈسٹری کی زبوں حالی ہے نہ ہی انڈین پاکستانی فلموں کا موازنہ بلکہ دو ایسی فلموں کا موازنہ ہے جو ایک ہی نام سے دو مختلف ممالک کی فلم انڈسٹری نے بنائی ہیں۔
ٹو وِومن (دو عورتیں)
یورپیئن سنیما اور ایرانی سنیما اپنی مثال آپ ہیں۔ پاکستان میں چونکہ ہالی ووڈ کا ہمیشہ راج رہا ہے تو ہماری عوام کی اکثریت یورپیئن، ایرانی،ْ میکسیکن، اسکنڈی نیوین، برازیلیئن اور جاپانی فلموں سے شناسا نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہالی ووڈ سالانہ سب سے زیادہ فلمیں پرڈیوس ضرور کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے چند فلموں کے علاوہ اکثریت بوگس ہوتی ہیں۔
اس کے برعکس یورپیئن سنیما ہو یا ایرانی فلمیں جو کم بجٹ ہونے کے باوجود بہترین موضوعات، جاندار کہانی اور مضبوط و مربوط ہدایتکاری کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔
1960ء میں دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں بنائی گئی فلم ’ٹو وومن‘ اٹیلیئن سنیما کی بلاشبہ ایک معرکہ آراء پیشکش کہی جا سکتی ہے۔
شہرہ آفاق اداکارہ صوفیہ لورین کی بے ساختہ اداکاری سے مزیّن یہ فلم جنگوں میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے بے رحمانہ اور بہیمانہ رویوں کا پردہ فاش کرتی ہے۔
اس فلم کی کہانی 1957ء میں شائع ہونے والے البرٹو موراویا کے ناول سے ماخوذ ہے اور بنیادی طور پر فکشن کہی جاسکتی ہے، لیکن روم میں ایسے سینکڑوں واقعات دوسری جنگ عظیم میں رونما ہوئے تھے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے فلم کے لکھاری اور ہدایتکار ’ویٹوریو ڈی سیکا‘ نے کہانی میں ان واقعات کو پرو کر ایک دل لرزا دینے والی فلم تخلیق کی۔
اس فلم میں صوفیہ لورین نے ایک 12 سالہ بیٹی کی جوان بیوہ ماں کا کردار نبھایا ہے، جو گزر بسر کے لیے ایک کریانہ کی دکان چلاتی ہے۔
جنگ کی تباہ کاریوں کے پیش نظر وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنے آبائی گاؤں کی راہ لیتی ہے۔ اپنی غیر موجودگی میں دکان کی دیکھ بھال کرنے کی قیمت، محلے کا ایک بااثر شخص اس کے جسم کو حاصل کر کے لیتا ہے۔
آبائی گاؤں میں اسے ایک مقامی شخص مائیکل سے محبت ہوجاتی ہے لیکن جلد ہی مائیکل کو کمیونزم کا حامی ہونے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ جنگ کے خاتمے پر جب وہ ماں بیٹی واپس اپنے شہر لوٹ رہی ہوتی ہیں تو راستے میں مراکشی سپاہوں کا جتھا ایک چرچ میں دونوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔
فلم کے آخری سین میں صوفیہ اور ایلیونورا براؤن کی اداکاری ہر آنکھ میں آنسو لانے کا سبب بنتی ہے۔ صوفیہ لورین کو اس فلم میں بہترین اداکاری پر اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
اس فلم میں عورت کے حوالے سے پدر شاہی معاشروں کے رویوں پر گہرا طنز ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ کی ہولناکیوں، جنگوں میں عورت کو مالِ غنیمت سمجھنے اور ان کی عزت کو تار تار کرنے جیسے المیہ کو اجاگر کرنا بھی شامل ہے۔
پوری فلم ماں اور بیٹی کے مضبوط کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ فلم گلیمر، میک اپ، بھڑکیلے لباس یا گانوں سے مبرا ہے، سارا کمال صرف کہانی، اداکاری اور ہدایتکاری کا ہے۔
اس اٹیلیئن فلم کی ریلیز کے کوئی 34 سال بعد 1999ء میں ایرانی خاتون ہدایتکار تہمینہ میلانی کا اپنی ہی لکھی ہوئی کہانی دو زن (ٹو وومن )کو فلم کے روپ میں تشکیل دینا ایرانی فلم انڈسڑی میں ایک تہلکے سے کم نہ تھا۔
یہ دو باصلاحیت نوجوان لڑکیوں کی کہانی ہے جو آرکیٹیکچر کی طالبات ہیں۔ دونوں دوستوں کے معاشی حالات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔
مشہور و معروف ایرانی اداکارہ نکی کریمی اور میریلا زارے نے یہ کردار جس خوبصورتی اور سادگی سے نبھائے ہیں اس پر ناظرین داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔
کہانی کا اصل کردار نکی کریمی ہے جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود خود کو بااختیار بنانے کے لیے بھرپور محنت کرتی ہے، یوں وہ تہران یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کی سب سے ہونہار طالبہ کا درجہ رکھتی ہے۔
فلم میں اس طالبہ کو اپنی شادی سے زیادہ اپنا کیریئر بنانے میں دلچسپی دکھائی گئی ہے۔ اس فلم میں جبری شادی کے موضوع کو بھی بڑی نزاکت سے چھیڑا گیا ہے۔
پدر شاہی معاشرہ کبھی باپ کے روپ میں تو کبھی شوہر اور کبھی راہ چلتے عاشق مزاج مرد کے بھیس میں اس لڑکی کے خود مختار ہونے کے خواب کو کس طرح ریزہ ریزہ کرتا ہے، اس کی عکاسی اس فلم میں بڑی نفاست سے دکھائی گئی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایران میں خواتین کو ایک مخصوص لباس میں ہی پردہ سیمیں پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ دیگر ایرانی فلموں کی مانند اس فلم میں بھی نہ کوئی گلیمر ہے، نہ ناچ گانے اور نہ ہی کوئی رومانویت، لیکن فلم کے اختتام تک نظریں اسکرین پر جمی رہتی ہیں۔ ایرانی فلم ’دو زن‘ کا بھی آخری سین ہر دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔
یہ دونوں فلمیں حقوق نسواں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایسی ایرانی اور یورپیئن فلمیں کم بجٹ ہونے کے باوجود دیکھنے والوں پر ایک بھرپور تاثر چھوڑ جاتی ہیں۔ بالخصوص ایرانی سنیما جہاں معاشرہ ایک حبس زدہ صورتحال کا شکار ہے، جہاں خواتین کی ہر طرح کی آزادی جبراً سلب کی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ہر ایرانی فلم کا موضوع ان کے حالات زندگی کے حساب سے اتنا موزوں ہوتا ہے کہ اکثر مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو ہماری ہی کہانی ہے۔
کیا ستم ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری پچھلے 2 دہائیوں سے ’سینما کی بحالی‘ کے نام پر سطحی اور غیر متعلقہ موضوعات پر اِکا دُکا فلمیں بنا کر پھولے نہیں سماتی۔ کاش پاکستانی لکھاری، ہدایتکار اور اداکار کم بجٹ اور حساس موضوعات پر بننے والی ایرانی فلمیں تنقیدی طور پر دیکھ لیں تو شاید پاکستانی شائقین کو بھی اچھی اور معیاری فلمیں دیکھنا نصیب ہوں۔ جب تک عوام اچھا سنیما نہیں دیکھے گی تب تک اسی طرح کی سطحی فلموں پر واہ واہ کی گردان جاری رہے گی۔