چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت آج چھٹی کے روز شروع ہونیوالے سینیٹ کے اجلاس کے دوران حکومت کی جانب سے پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل پیش کرنے کی اجازت طلب کی گئی جس پر اپوزیشن سمیت اتحادیوں نے بھرپور احتجاج کیا۔
پی ٹی آئی نے مجوزہ بل کو ’تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا بل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے ایسا کرنا ہے تو مارشل لا لگا دے۔
حکومت اتحاد میں شامل جماعتوں سے وابستہ سینیٹرز نے بل کو جمہوریت کی موت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹرز کی جانب سے اظہار خیال کے بعد رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کرے یا نہ کرے اس بل کو میں ڈراپ کرتا ہوں۔
چیئرمین سینیٹ نے چھٹی کے دن بل کو منظور کرانے کے لیے اجلاس طلب کرنے سے متعلق سینیٹر عبد الغفور حیدری کے شکوے پر کہا کہ بل کی منظوری کے لیے سیشن طلب نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق سینیٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ دن بھی پورے کرنا ہوتے ہیں۔ چھٹی اگر دو سے تین دن ہو جائے تو تین دن کا شمار نہیں ہوتا۔
سینیٹ اجلاس کے دوران وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جگہ وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت اعوان نے پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل 2023 پیش کیا تو تحریک انصاف کے سینیٹرز نے شدید احتجاج کیا۔ جس پر چیئرمین سینیٹ نے بل کو کمیٹی بھیجنے سے متعلق ارکان سینیٹ سے رائے طلب کی۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ بل کا نام پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام ہے لیکن رانا ثناء اللہ اس بل کا نام ’تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا بل‘رکھنا چاہتے ہیں۔ بل کی ہر ایک شق سے بو آ رہی ہے کہ یہ سارا بل تحریک انصاف کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
’بل کیخلاف حکومت کے اتحادی جے یو آئی والے بھی احتجاج کر رہے ہیں، اگر اسی طرح کرنا ہے تو حکومت مارشل لا لگائے یا پارشل لا لگائے، ہم پارلیمنٹ میں کیوں بیٹھے ہیں، بل کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔‘
جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضٰی نے کہا کہ اس طرز کی قانون سازی سے پہلے اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہوتا ہے، چھٹیوں کے دن ایسی قانون سازی سے آپ اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہیں، آج نشانہ کوئی اور ، کل کوئی اور بنے گا۔ کل یہ ہم سب کے لیے مصیبت بنے گا۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ سارے بڑے فیصلے دو جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کر رہی ہے، پیپلزپارٹی تو پی ڈی ایم کا حصہ نہیں تاہم پی ڈی ایم جماعتوں کو مسلم لیگ ن سے بہت گلہ ہے ۔ اس عرصے میں جو الٹی سیدھی قانون سازی کی گئی اس پر اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
’یہ بل جمہوریت پر کھلا حملہ ہے، رک رک کر سانس لینے والی جمہوریت کی موت ہے یہ بل۔ جو لوگ خوش ہیں کہ اس قانون کی زد میں کوئی اور ہے ان کو بتا دیں۔ لہذا ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں اور اگر بل پیش کیا گیا تو ہم واک آؤٹ کریں گے۔‘
جمیعت علماء اسلام کے سینیٹر عبد الغفور حیدری نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام اس بل کی مخالفت کرتی ہے، اگر کوئی بضد ہے کہ بل پاس ہونا ہے تو ہم واک آؤٹ کریں گے۔ ہمارے اتحادیوں کو معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، بہت سے معاملات اس بل کی زد میں آ جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ غیر منتخب طاقتیں چاہتی ہیں کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہی جمہوریت کی تدفین کی جائے۔ یہ بل پی ٹی آئی نہیں بلکہ ساری جماعتوں کے خلاف ہے۔ ’یہ بل جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا، حیرت ہے کہ حکومت نے اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر یہ بل پیش کیا ہے۔‘