ہم اپنے بچوں کو تیزی سے موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں !

اتوار 12 فروری 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم ایسے سرکاری اسکولوں میں پڑھے ہیں جہاں کھیل کے ایک سے زیادہ کھلے میدان ہوتے تھے، جن پر گھاس کی ہلکی پھلکی خوبصورت چادر بچھی ہوتی تھی۔ صرف ہمارے اسکول ہی میں ایسا نہیں تھا بلکہ مڈل کلاس کے قریباً تمام لوگ ایسی ہی اسکولوں میں پڑھے ہوئے ہیں۔

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ مڈل کلاس کے لوگ ملکی آبادی کا غالب حصہ ہوتے ہیں۔ ہمارے سکول کے میدان اس قدر وسیع و عریض ہوتے تھے کہ بعض اوقات ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ پورے میدان کا چکر لگانے کا مقابلہ کرتے ، لیکن بہ مشکل دو چکر ہی لگا سکتے تھے۔ انہی میدانوں میں ہفتے میں چار روز تک روزانہ فزیکل ایجوکیشن کا ایک پیریڈ ہوتا تھا۔

ہم ایسے کالجز میں پڑھے تھے  جہاں نیشنل کیڈٹ کورس ( این سی سی ) کے عنوان سے نیم فوجی تربیت کا اہتمام ہوتا تھا۔ پھر نائن الیون ہوا اور ہم دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستہ بنے اور اس خیال سے پورے ملک کے تعلیمی اداروں سے این سی سی بھی ختم کردی کہ کہیں امریکی حکام کی طبع نازک پر گراں نہ گزر جائے۔ ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ ایسا کرکے ہم اپنی نوجوان نسل کی صحت کو تباہ و برباد کردیں گے۔

تعلیمی اداروں میں کھیل کے میدان اور جسمانی تربیت کا اہتمام یہ سب بھلے دور کی باتیں ہیں ۔ پھر ہمارے ہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کلچر عام ہوا ۔ چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں تعلیمی ادارے کھلے جہاں کھیل کا میدان تو دور کی بات ، کلاس رومز اس قدر تنگ ہوتے ہیں کہ طلبہ و طالبات کے لئے سانس لینا بھی دوبھر ہوجاتا ہے۔برا ہو ہماری حکومتوں کا ، جو اس بدترین صورت حال سے نظریں چرائے رہتی ہیں۔

انھیں فکر ہی نہیں کہ ہمارے بچے اس تنگ ماحول میں کس تیزی سے موت کے گھاٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔کیا ہمارے حکام نہیں جانتےکہ جسمانی حرکت یعنی فزیکل ایکٹویٹی انسانوں کے لئے باالخصوص نوعمر بچوں کے لئے کس قدر اہم ہے!

گزشتہ دنوں ’ عالمی ادارہ صحت ‘ کی جاری کردہ ایک رپورٹ پڑھنے کو ملی ، جس کے مطابق جن لوگوں کی زندگی میں فعالیت نہیں ہوتی ، تحرک نہیں ہوتا، وہ متحرک لوگوں کی نسبت20 سے 30 فیصد جلد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

اس جائزے کی بنیاد بڑی عمر کے لوگ ہی نہ تھے بلکہ ننھے بچوں کی صحت اور زندگی کا بھی جائزہ لیا جاتا رہا ۔ رپورٹ میں لڑکپن ، جوانی اور اس کے بعد کی عمر کے لوگوں کو جسمانی سرگرمیوں کی بابت ہدایات دی گئیں بلکہ ایک سال سے کم عمر بچوں کی جسمانی سرگرمیوں سے متعلق بھی ماﺅں کو طریقے سمجھائے گئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ہفتے ڈیڑھ سو سے تین سو منٹ یعنی ڈھائی گھنٹے سے تین گھنٹے تک جسم کو متحرک رکھا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی سرگرمی سے انسان کے دل ، جسم اور ذہن صحت مند رہتے ہیں۔ انسان غیر متعدی امراض مثلاً امراض قلب ، کینسر اور ذیابیطس سے محفوظ رہتا ہے۔

خدانخواستہ یہ امراض لاحق ہوجائیں تو جسمانی سرگرمی بڑھا کر ان امراض سے نجات بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈپریشن اور ذہنی تناﺅ کی علامات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اور ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ جسمانی سرگرمیاں انسان کے سوچنے ، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔

خیر ! یہ ساری باتیں تو پڑھے لکھے لوگوں کی ہیں، ہمارے حکمرانوں کی اداﺅں سے لگتا نہیں کہ پڑھنے لکھنے سے ان کا کوئی تعلق ہے، ورنہ جسمانی سرگرمیوں کی افادیت سے کون واقف نہیں۔ آپ کسی چٹّے ان پڑھ فرد سے بھی پوچھیں گے ، وہ بھی فزیکل ایکٹویٹی کے ایک ہزار ایک فضائل بیان کرے گا۔

ہم میں سے ہر کوئی کڑھتا ہے، اپنے سینے کا غبار نکالتا ہے، صرف اس لئے کہ ہمارے بچے جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کے سبب مفلوج ہورہے ہیں ، قتل ہو رہے ہیں۔ اسکول ٹائم کے بعد وہ اچھا خاصا وقت سکرین ٹائم پر گزار دیتے ہیں ۔کوئی سمجھانے والا ہی نہیں ، جو سمجھانے والے ہیں ، وہ اپنے مفادات کے چکروں میں اس قدر مگن ہیں کہ صحت کا شعور بڑھانے کے لئے وقت ہی نہیں بچتا۔

کاش ! حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں کا ایک ملک گیر جائزہ لیا جائے کہ کتنے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں بچے تنگ و تاریک ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں کھیل کا میدان نہیں۔ ان کے کلاس رومز کا جائزہ لیا جائے کہ کیا وہ صحت افزا ہیں ؟ اور پھر ایسے تمام تعلیمی ادارے بند کردئیے جائیں جہاں بچوں کو صحت مند ماحول میسر نہ ہو ، بھاگنے دوڑنے ، کھیلنے کودنے کے لئے میدان میسر نہ ہو۔

طبقہ اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں ہر صحت افزا سہولت میسر ہے لیکن مڈل کلاس لوگوں کے تعلیمی اداروں میںکچھ بھی نہیں۔ ڈربے ہی ڈربے بنے ہوئے ہر محلے میں، وہ بھی اس قدر بڑی تعداد میں کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد شاید کم ہو لیکن نئے کھلنے والے تعلیمی اداروں کی تعداد زیادہ ہوگی۔

اصلاح احوال کے لئے حکومتوں کی ذمہ داری زیادہ ہے ، البتہ والدین بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ انھیں بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان کے بچے کہاں اور کس ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں ، مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل کرواتے ہیں لیکن وہاں صحت کی سہولتیں کس قدر میسر ہیں ، اس پر غور نہیں کرتے۔

ہم ساری زندگی اہل مغرب کی طرف دیکھ کر گزارتے ہیں ، انھیں دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں ، ان کی نقالی میں الٹی سیدھی حرکتیں بھی کرتے ہیں لیکن ان سے کام کی باتیں نہیں سیکھتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp