پاکستان میں روز افزوں پیٹرول کی قیمتوں نے پاکستانیوں ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ ان بڑھتے چڑھتے نرخوں کا شکوہ پاکستان آئے جرمن سیاح کو بھی ہے۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے مارسیل لیڈ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 8 سال سے مختلف ممالک کی سیر کر رہے ہیں جن میں آسٹریلیا، جاپان، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ انہیں پاکستان اور پاکستانی ثقافت دونوں پسند آئے ہیں مگر پیٹرول کے نرخوں سے وہ کچھ ناخوش ہیں۔
مارسیل پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں اور وہ آن لائن انگلش اور جرمن بھی پڑھاتے ہیں۔ اس وقت وہ پاکستان کی سیر پر نکلے ہیں اور ہونڈا 125 موٹر بائیک پر تقریباً 4 ہزار کلومیٹر کا سفر کرچکے ہیں۔
جرمن سیاح کا کہنا ہے کہ جب وہ سعودی عرب میں تھے تو وہاں بہت سے پاکستانی ملے جنہوں نے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ آخرکار انہوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں انہیں سب سے پہلے سواری کے طور پر موٹر بائیک نظر آئی۔
مارسیل کے مطابق انہوں نے اس سواری کا انتخاب اس لیے کیا کہ یہ یہاں کی عوامی سواری ہے۔ ان کے بقول انہوں نے راولپنڈی سے 1 لاکھ 60 ہزار روپے میں ہونڈا 125 موٹر بائیک خریدی اور اسی پر پاکستان گھومنا شروع کیا۔ یہاں کی سیاحت کے دوران انہیں ایبٹ آباد، ناران، کاغان، اسکردو اور استور ویلی جیسی جگہیں بہت پسند آئی ہیں۔
جرمن سیاح کے مطابق وہ 60 ملکوں کی سیر کرچکے ہیں اور انہیں یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی اور رویے نے بہت متاثر کیا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب وہ مزید کچھ شہروں کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے کھانوں میں کیا پسند آیا؟
اس سوال کے جواب میں جرمن سیاح مارسیل نے کہا کہ پاکستانی کھانے بے حد لذیذ ہیں اور خاص طور پر انہیں چکن بریانی بہت پسند آئی ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد کے کوئٹہ کیفے میں چکن چیز پراٹھا ان کی روزانہ کی خوارک ہے اور وہ اسے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔
مارسیل لیڈ کے مطابق پاکستان آنے سے پہلے انہوں نے زندگی میں کبھی چائے نہیں پی تھی لیکن جب سے پاکستان آئے ہیں وہ دن میں 5، 5 بار بھی چائے پیتے ہیں۔
پٹرول کا خرچ زیادہ ہے؟
موٹر بائیک پر سفر سے متعلق مارسیل کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ قدرے آسان ہے۔ تاہم اسے چلاتے ہوئے احتیاط ضروری ہے۔ اخراجات سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ہر تیسرے دن انہیں دو ہزار کے لگ بھگ پٹرول ڈلوانا پڑتا ہے جو کہ زیادہ ہے۔ پہاڑی علاقوں کی جانب سفر کے باعث موٹر بائیک کی مرمت کے اخراجات بھی تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے بقول لمبے سفر کے دوران کوئی نا کوئی مدد کے لیے مل ہی جاتا ہے۔ اپنے سفری تجربات سے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ تیز رفتاری کے باعث ان کا ایکسیڈنٹ ٍبھی ہوچکا ہے، اس لیے اب وہ ہیلمٹ کا استعمال اور احتیاط لازمی کرتے ہیں۔