انتخابات کا سال ریلیف کے منتظر عوام

اتوار 6 اگست 2023
author image

آمنہ عامر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مہنگائی کو ختم کر دیں گے، نوجوانوں کو روز گار فراہم کریں گئے۔ صعنتی انقلاب لائیں گئے روزگار ملے گا۔ معاشی ترقی ہو گی، ملک میں پیسوں کی ریل پیل ہو گی، خوشحالی عوام کا مقدر بنے گئی۔ بالکل یہ تمام انقلابی وعدے دراصل سیاسی جماعتوں کے انتخابی نعرے اور دعوے ہوتے ہیں جن کو وفا ہوتے پاکستانیوں نے شاید کم ہی دیکھا ہو۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو مختلف اداروں میں جب بھی کسی جماعت نے حکومت سنبھالی تو ساتھ ہی عوام کو پہلی بات سنے کو ملی کہ گزشتہ حکومت کی خراب معاشی پالیسوں کے باعث ملکی خزانہ خالی ہے۔

ملک دالولیہ ہونے کو ہے۔ عوام قربانی دے اور کچھ عرصہ مہنگائی کو برداشت کرے۔ عوام کے پاس برداشت کے سوائے ہوتا بھی کچھ نہیں، یہی سوچ کر چپ ہوجاتے ہیں چلو دیکھ لیتے ہیں آزما لیتے ہیں شاید بہتری آ ہی جائے، مگروہ ریلیف بہتری عوام کو حکومت کے آخری مہینوں میں ضرور ملتا ہے، یوں سمجھیں کہ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب جانے والی حکومت عوام پر مہربان ہوتے ہوئے کبھی یوٹیلیٹی اسٹورز کا سہارا لے کر سستا آٹا یا دیگر اسکمیں شروع کر کے ریلیف دینے کی کوشیش کرتی ہے۔

عوام کو خوش کرنے کے لیے نئی ترقیاتی اسکمیوں کو اجراء کیا جاتا ہے جہاں روزگار بھی مل جاتا ہے، کبھی کئی سالوں ایڈہاک پر کام کرنے والوں کو سرکاری ملازمتوں میں مستقل کیا جاتا ہے، ایسا سب کچھ عوام کو صرف خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ لوگ حکومت کے ان اقدامات سے متاثر ہو انتخابات میں ان کی سیاسی جماعت کو ووٹ دیں اور یہ سب انتخابات کے سال میں ہوتا ہے۔

جسے عام طور پر ’الیکشن ائیر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنے ووٹ بینک کے لیے خزانے کھول دیتی ہیں، ایسا صرف ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتا ہے ۔ مگر اس بار پاکستان میں ’الیکشن ائیر‘ بھی عوام کو ریلیف تو نہ دے سکا بلکہ مسائل اور پریشانیاں بڑھا گیا۔ مہنگائی میں کمی کا نعرہ لئے اقتدار سنبھالنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے عوام کا وہ حال کر دیا کہ وہ اب ایک وقت کی روٹی سے بھی مجبور ہو چکی۔

اپریل 2022 سے جولائی 2023 کے دوران مہنگائی

مہنگائی سے چھٹکارہ دلوانے کا نعرہ لیے جب گزشتہ سال پی ڈی ایم کی جماعتیں حکومت میں آئیں تو ملک میں کھانے پینے کی اشیاء اتنی مہنگی نہیں تھی جو آج ہو چکی۔ سرکار کے اپنے ادارے ادارہ شماریات کی طرف سے جاری اعداو شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال اپریل میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 1173 روپے، دال مسور 217 روپے فی کلو، گھی 474 روپے فی کلو، چینی 87 روپےفی کلو، گائے کا گوشت 619 روپے، دال چنا 166 روپے، ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 2477 روپے، پیٹرول 150 روپے 63 پیسے فی لیٹر میں دستیاب تھا۔

ایک سال کے اندر اس وقت جب حکومت اقتدار چھوڑ کر نئے انتخابات کے لیے میدان میں آ رہی ہے تو اس وقت ملک میں دال چنا 241 روپے فی کلو تک جا پہنچی، دال مسور 276 روپے، چینی 144 روپے، گھی 562 روپے، آٹے کا تھیلا 2830 روپے، گائے کا گوشت 789، پیٹرول 272 اعشاریہ 95 پیسے فی لیٹر ہو چکا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط کے باوجود ڈالر نیچے نہ آسکا۔

صعنتی پیدوار وبرآمدات میں کمی

ملک میں جاری معاشی و سیاسی بحران کے باعث ملکی صعنت بری طرح متاثر ہوئی۔ سرکار کے اپنے اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ ملک میں جولا ئی 2022 سے مئی 2022 کے دوران بڑی صعنتوں کی پیدوار 9 اعشاریہ 87 فی صد گر گئی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا، اور برآمدات بھی متاثر ہوں گئی۔ ملک میں سالانہ بیناد پر برآمدات 8 اعشاریہ 57 فیصد کم ہوئی، برآمدات کے فروغ، صعنتی ترقی مہنگائی میں کمی، معاشی نمو کی بہتری کے لیے حکومت کوئی واضح پالیسی نہ دے سکی۔

نئی مردم شماری کے تحت انتخابات ووٹ بنک کا مسئلہ

’الیکشن ائیر‘ میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے عوام پر اس کی بساط سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے پہلے 11 اگست کو اسمبیلیاں تحلیل کرنے کا کہا اور اب ان کی طرف سے انتخابات کو ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کے تحت کروانے کے اچانک بیان سولات کو جنم لیتے ہیں، کیا حکومت اپنے ووٹ بینک کے لیے وقت کی مہلت کی تلاش میں ہے۔

کیونکہ اس سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف بھی واضح کہہ چکے ہیں کہ پہلے عوام کو ریلیف دیں پھر الیکشن میں جائیں۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور خورشید شاہ کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا پہلا بیان مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی گرتی ساکھ کو دیکھ کر دیا گیا تھا، کیا اس وقت تک حکومت میں بیٹھی جماعتوں کو احساس نہیں تھا کہ اس وقت 150 روپے فی کلوآٹا اور 144 روپے فی کلو چینی خریدنے پر مجبور عوام ان کو ووٹ دینے کو تیار ہو جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp