سابق ایم این اے اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کی مرکزی رہنما بشریٰ گوہر نے کہا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے لیے کسی خاتون کو نامزد نہ کرنا پاکستان کی آبادی کے نصف حصے کے ساتھ زیادتی ہے۔
اسلام آباد میں وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اے این پی کی سابق نائب صدر کا کہنا تھا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ خواتین سیاست اور ہر شعبے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں تو دوسری جانب کسی بھی لسٹ میں کسی خاتون کو نگراں وزیراعظم کے لیے نامزد نہیں کیا جا رہا۔
بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ وہ نگراں وزیراعظم کے حوالے سے میڈیا پر گردش کرنے والے ناموں کو مسترد کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ کسی خاتون کو بھی اس عہدے کے حوالے سے نامزد کیا جائے۔
’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عمل مردوں کی مناسبت سے ہی بنایا گیا ہے اور اس حوالے سے خواتین سیاستدان ابھی تک جدو جہد کے مرحلے سے گزر رہی ہیں‘۔
نگراں وزیراعظم کے لیے خواتین امیدواروں کے لیے انہوں نے سماجی رہنما ڈاکٹر صبا گل خٹک اور قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی سابق چیئر پرسن خاور ممتاز کے نام تجویز کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نگراں وزیراعظم کے نظام کے خلاف ہیں کیوں کہ جتنے انتخابات نگرانوں کے زیر انتظام ہوئے ہیں وہ متنازعہ ہی ہوئے ہیں اور اس سے غیر جمہوری قوتوں کو الیکشن میں مداخلت کا موقع بھی ملتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا جائے‘۔
بشریٰ گوہر نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے باوجود پاکستان میں اب بھی خواتین کو سیاسی عمل میں مکمل شمولیت نہیں دی گئی ہے۔
ان کے مطابق خواتین اسمبلی میں جتنا بھی کام کریں سیاسی جماعتیں ان کو فیصلہ سازی میں اہم کردار نہیں سونپتی ہیں۔ انہوں نے بہت جدوجہد کرکے آئینی اصلاحات کمیٹی میں جگہ بنائی تھی۔ ’ہمیں اپنے لیے بہت مشکل سے راستہ بنانا پڑتا ہے‘۔ خواتین کے پارلیمنٹ میں کام کی تعریف ہوتی ہے مگر پھر بھی فیصلہ سازی سے انہیں دور رکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس تجربہ نہیں ہے۔ حالاں کہ تجربہ تو موقع دینے سے آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی انتخابات ہونے چاہییں۔
بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں کئی جگہوں پر خواتین کو ووٹ کا حق بھی نہیں ملتا تھا جس پر انہوں نے کافی جدوجہد کرکے الیکشن کمیشن کو نوٹس لینے پر مجبور کیا اور اب تو قانون بھی ہے کہ کسی علاقے میں اگر خواتین کا ووٹ 10 فیصد سے کم ہوگا تو وہاں دوبارہ الیکشن ہوں گے۔ ’میرے خیال میں کم سے کم 10 فیصد خواتین کے ووٹ کا قانون ہر پولنگ اسٹیشن کے لیے ہونا چاہیے‘۔
اے این پی سے نکالے جانے کی وجہ معلوم نہیں
بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ اے این پی میں شمولیت کے لیے انہیں باقاعدہ دعوت دی گئی تھی اور پورا سال مشاہدہ کرنے کے بعد وہ جماعت میں شامل ہوئی تھیں تاہم انہیں نہیں معلوم کہ پارٹی نے انہیں کیوں شوکاز نوٹس جاری کیا۔
یاد رہے کہ این اے پی نے نومبر 2018 میں مبینہ طور پر پارٹی مخالف سرگرمیوں پر اپنے سینیئر رہنماؤں افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کی رکنیت معطل کر دی تھی تاہم بشریٰ گوہر نے پارٹی کے خلاف سرگرمیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی ان کے نظریات وہی ہیں اور وہ باچا خان کی پیروکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں پربہت دباؤ ہوتا ہے۔
اگلے الیکشن میں بھی لبرل جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کو ترجیح دیں گی
بشریٰ گوہر جو اس وقت ایم این اے محسن داوڑ کی جماعت این ڈی ایم کی صوبائی چیئرپرسن ہیں کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ابھی نئی ہے تاہم اگلے الیکشن میں اپنے مضبوط علاقوں سے حصہ لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں انہیں ایک مخلوط حکومت بنتی نظر آ رہی ہے تاہم بہت ضروری ہے کہ الیکشن صاف و شفاف ہوں اور پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت کو بھی دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائے۔