جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کے خلاف مضبوط مقدمے کو کمزور کر دیا، عمران شفیق ایڈووکیٹ

بدھ 9 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق نیب پراسیکیوٹر اور سینیئر وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کا مقدمہ بہت مضبوط ہے۔ میرٹ پر یہی فیصلہ بنتا تھا کیونکہ ایک چیز بہرحال نظر آتی ہے کہ عمران خان سے مس ڈکلیریشن ہوئی ہے۔

عمران شفیق نے کہا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے جو تحائف وصول کیے تھے ان کو فارم بی میں ظاہر نہیں کیا۔ سب سے پہلے دیکھنا یہ پڑے گا کہ اس مقدمے کے میرٹس کیا ہیں۔ آیا چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے توشہ خانہ سے موصول شدہ تحائف کو اپنے فارم بی میں ظاہر کیا تھا یا نہیں اور اگر نہیں کیا تھا تو اس کے نتائج کیا ہیں۔ اگر ایف بی آر میں کیا تھا اور الیکشن کمیشن میں نہیں کیا تھا تو اس کے نتائج کیا ہیں، اسی طرح اگر تاخیر سے ان تحائف کا ذکر کیا ہے تو اس کے نتائج کیا ہیں، اگر کیا ہے تو اسی کی قیمت کتنی درج کی ہے، یہ اس مقدمے کے میرٹس ہیں۔

’اسی طرح سے یہ سوال کہ یہ مقدمہ قابلِ سماعت ہے کہ نہیں یا عدالتی دائرہ اختیار میں تھا کہ نہیں، یہ سب میرٹ سے متعلق سوالات ہیں‘۔

عمران شفیق نے کہا کہ عمران خان نے جو سیکشن 342 کا بیان قلمبند کروایا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان سے پہلے والے وزرائے اعظم بھی توشہ خانہ تحائف کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کرتے تھے۔ لیکن یہ کوئی جواز نہیں کہ اگر پہلوں نے ظاہر نہیں کیا تو آپ بھی نہ کریں۔

سینیئر وکیل کے مطابق اگر پہلے والوں نے ظاہر نہیں کیے تو ان کے خلاف بھی قانون کو حرکت میں آنا چاہیے۔ لیکن یہ کوئی جواز نہیں اس طرح کوئی بھی مجرم کہہ سکتا ہے کہ فلاں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوئی لہٰذا میرے خلاف بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح سے تو فوجداری قانون نہیں چل سکتا۔

توشہ خانہ مقدمے میں ٹرائل جج نے ضابطہ کار کی 3 غلطیاں کی ہیں

عمران شفیق نے کہا کہ توشہ خانہ مقدمے کے فیصلے میں جج نے ضابطہ یا طریقہ کار سے متعلق 3 بنیادی غلطیاں کی ہیں، پہلے نمبر پر عمران خان نے گواہوں کو طلب کرنے اور ریکارڈ منگوانے کی جو درخواست کی تھی، اس کا موقع انہیں ملنا چاہیے تھا۔ گواہ پیش کرنے کے لجے استغاثہ کا کیس نہیں بلکہ دفاع کا کیس دیکھا جاتا ہے۔

عمران خان نے 342 کے بیان میں کہا کہ میرے فارم تو کنسلٹینٹ نے بھرے تھے اور میں بطور گواہ ان کو پیش کرنا چاہتا ہوں، عمران خان کو گواہ پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا اور کمزور سے کمزور بنیادوں پر بھی اگر کوئی دفاع ہے تو ملزم کو حق ملنا چاہیے۔

مقدمے کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا

عمران شفیق نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔ ایک پیشی پر عمران خان نہیں آئے تو دوسری پر ان کا حقِ دفاع ختم کر دیا گیا۔

دوسرا ہر ملزم کا حق ہے کہ اس کے مقدمے میں حتمی دلائل سنے جائیں اور مکمل بحث ہو۔ مقدمے پر پوری بحث سنی جائے۔ فوجداری قانون میں بحث کا پورا قانون موجود ہے۔ حتمی بحث یا حتمی دلائل بھی ایک حق ہے جس کو جلد بازی میں ختم کیا گیا ہے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر کے مطابق تیسری غلطی اس مقدمے کے فیصلے میں یہ کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے کے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں ٹرائل عدالت کو ہدایت کی کہ عمران خان کے وکلا کو سنا جائے لیکن ٹرائل جج نے قابلِ سماعت ہونے کے بارے میں درخواست سنے بغیر 5 اگست کو ساڑھے 12 بجے فیصلہ سنا دیا۔ گو کہ میرٹ کی بنیاد پر یہی فیصلہ بنتا تھا لیکن قانون اس بات کو نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ ملزم کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے۔

اپیل میں عمران خان کو بحث کا پورا موقع ملے گا

عمران شفیق نے کہا کہ جب ٹرائل عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جاتے ہیں تو ایپلیٹ کورٹ عام طور پر ٹرائل عدالت کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیتی ہے اور وکلا سے یہ کہا جاتا ہے کہ دوبارہ سے مقدمے کے اوپر بحث کی جائے اور وہاں عمران خان کو پورا موقع ملے گا۔

’110 ہائیکورٹ عمران خان کی سزا معطل کر دے گی لیکن نااہلی برقرار رہے گی

عمران شفیق نے کہا کہ 110 فیصد چانسز ہیں کہ ہائی کورٹ عمران خان کی سزا معطل کر دے لیکن سزا معطل ہونے کا مطلب ہے کہ انہیں ضمانت پر رہائی تو مل جائے گی لیکن وہ مجرم رہیں گے جب تک انہیں اس مقدمے سے بری نہ کر دیا جائے۔ اور اگر الیکشن سے پہلے ان کو اس مقدمے سے بری نہیں کیا جاتا تو وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

جج اپنے کنڈکٹ کی وجہ سے ایک مضبوط مقدمے کو کمزور کر دیتا ہے

عمران شفیق نے کہا کہ جب ایک مقدمہ عدالت میں آتا ہے تو ایک جج اپنے رویے کی وجہ سے، اپنی قانونی مہارت میں فقدان کی وجہ سے، اپنی جلد بازی یا کچھ اور بیرونی عوامل کی وجہ سے ایک سیدھے سادے کیس کو خراب کر دیتا ہے اور مقدمے کے فیصلے کے بارے میں یہ تاثر پھیل جاتا ہے کہ انصاف نہیں ہوا۔ کیونکہ انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے، انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ جج ہمایوں دلاور نے اس مضبوط مقدمے کو اپنی غلطیوں کی وجہ سے کمزور کیا ہے۔

عمران خان کو اٹک جیل میں کیوں رکھا گیا؟

عمران شفیق نے کہا کہ کس مجرم کو کونسی جیل میں رکھنا ہے اس کا فیصلہ صوبائی یا وفاقی حکومت اپنی عملداری کے تحت کرتی ہے، لیکن کوئی بھی سزا یافتہ مجرم اگر تنگ ہو تو درخواست دے دیتا ہے کہ اسے فلاں جیل میں رکھا جائے تو عدالتیں عام طور پر ایسی درخواستیں منظور کر لیتی ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سزا یافتہ مجرم کو اپنے آبائی ضلع کی جیل میں رکھا جاتا ہے، جہاں اسے سہولت ہو وہاں رہنے کی اجازت بہر حال مل جاتی ہے۔

عمران خان کو قانون کے مطابق جیل میں کلاس ملنی چاہیے

عمران شفیق نے کہا کہ ویسے تو کلاس سسٹم غلط ہے لیکن قانون کے مطابق عمران خان کی جو کلاس بنتی ہے وہ انہیں ملنی چاہیے۔ ان کو بی کلاس کے تمام حقوق ملنے چاہییں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp