وی ایکسکلوسیو: کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر بھارت سے رابطے بحال نہیں ہوسکتے، وزیراعظم

جمعرات 10 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ہماری خارجہ پالیسی کو بہت نقصان پہنچا۔ وی نیوز کے اس سوال پر کہ کیا بطور وزیراعظم انہیں کسی اور ملک سے بھی عمران خان کی حکومت کے حوالے سے شکایت موصول ہوئی جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’بے پناہ۔ ہمارے برادر ممالک سخت نالاں اور ناراض تھے‘۔

اسلام آباد میں وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ بھی تعلقات خراب کیے۔ ’میں تفصیل میں تو نہیں جاسکتا لیکن دیکھیں سعودی عرب کو نیچا دکھانے کے لیے کوشش کی گئی کہ ایک بلاک بنایا جائے اور اس بلاک کے ذریعے سعودی عرب کو تنہا کیا جائے۔ یہ کتنا افسوسناک واقعہ ہے اور کتنی گری ہوئی سوچ ہے کہ دوست جو بغیر کسی شرط اور لالچ اور کسی بدلے کی توقع کیے آپ کو بھائی اور خاندان کی طرح مدد کرے اور ہم اسی کے ناشکرے اور احسان فراموش بن جائیں اور یہ کہیں کہ سعودی عرب کے بغیر ہم کشمیر کاز کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔‘

وزیراعظم نے کہا کہ ’دونوں برادر ممالک میں اتنی خراب صورتحال کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا جو عمران نیازی کے دور میں ہوئی۔ ایک مثال ہے کہ جو انسان کا شکر ادا نہیں کرسکتا وہ خدا کا شکر کیسے ادا کرے؟

وزیراعظم نے پاکستان پر سعودی عرب کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کونسا موقع تھا اور مشکل تھی جس میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا ہو۔ کبھی زلزلہ آیا یا سیلاب تو سعودی عرب آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور بھائی کی طرح بھائی کا ساتھ دیا۔ اس سے اعلی مثال بھائی چارے کی کوئی نہیں ہوسکتی۔

’عمران خان کا امریکی سازش بیانیہ جھوٹ ہے سائفر کے مندرجات لیک کرنا جرم ہے‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ تھا کہ امریکی سازش سے ہماری حکومت آئی مگر یہ جھوٹ ہے، اگر ایسا ہوتا تو روس سے ہم سستا تیل نہ لیتے اور نا ہی چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بحال ہوتے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’بذاتِ خود اگر سائفر کے مندرجات جو (بین الاقوامی اخبار میں) چھپے ہیں وہ درست ہیں تو یہ ایک بہت بڑا جرم ہے‘۔

بین الاقوامی جریدے ’دی انٹرسیپٹ‘ میں سائفر کے حوالے سے چھپنے والی خبر پر وی نیوز کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سائفر کے حوالے سے قومی سلامتی کونسل کے 2 اجلاس ان کی سربراہی میں ہوئے۔ ایک اجلاس میں اس وقت کے پاکستانی سفیر اور موجودہ سیکرٹری خارجہ اسد مجید نے واضح طور پر کہا کہ ان کی امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو سے ملاقات میں سازش کی کوئی بات نہیں ہوئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت کے سپہ سالار جنرل باجوہ اور سروس چیفس نے بھی تائید کی تھی کہ پاکستان کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔

’عمران نیازی کا یہ بیانیہ تھا کہ امریکا نے میری حکومت اس لیے گرانے کی کوشش کی کہ میں چین اور روس کی طرف زیادہ راغب تھا تو مجھے بتائیں کہ اگر امریکی سازش سے خدانخواستہ ہماری حکومت بنتی تو ہمیں روس سے تیل ملتا؟ ہمارے چین سے تعلقات بحال ہوتے جنہیں عمران نیازی نے تباہ کردیا تھا؟ تو بس یہی ایک ثبوت کافی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی نے بعد میں دوسرے بیان میں خود کہا تھا کہ امریکا نے کوئی سازش نہیں کی۔ اب آپ ان کے پہلے بیان کو مستند مانیں گے یا دوسرے کو؟

وزیراعظم نے مزید کہا کہ خدانخواستہ امریکی سازش سے یہ حکومت آئی ہوتی تو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ ہرگز توقع نہیں تھی کہ کوئی پاکستانی وزیراعظم اس طرح کا بدترین زہر ملک کے خلاف اگلے گا، یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے اس میں دُور دُور تک کوئی حقیقت نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں جو بگاڑ آگیا تھا ہم نے اس کو باہمی احترام اور اعتماد کی سطح پر لانے کے لیے بہت محنت کی۔

نگران وزیراعظم کے حوالے سے تاخیر پر ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھنے میں غلطی کی جارہی ہے کل رات میں نے اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس بجھوائی۔ اس سے قبل آئین کہتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ کہ آپ یہ آئینی مرحلہ پورا نہ کرلیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں جو بگاڑ آگیا تھا ہم نے اس کو باہمی احترام اور اعتماد کی سطح پر لانے کے لیے بہت محنت کی (فوٹو: وی نیوز)

نگران وزیراعظم کون ہوگا؟

نگران وزیراعظم کے حوالے سے تاخیر پر ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھنے میں غلطی کی جا رہی ہے کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ کل ہونا تھا، ایسا نہیں ہے کیونکہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت نہیں ہوسکتی ہے۔

وزیراعظم نے بتایا کہ ’اب جبکہ گزشتہ رات یہ مرحلہ مکمل ہوگیا اور صدر نے اسمبلی تحلیل کردی ہے تو اس کے بعد آج میری اپوزیشن لیڈر سے پہلی ملاقات طے ہے جس میں اس پر بات ہوگی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی وہ نگران وزیراعظم کے حوالے سے نام کا نہیں بتا سکتے مگر جو بھی بات ہوگی وہ پردے میں نہیں ہوگی اور معاملہ سامنے آجائے گا۔

’عمران خان نے سعودی عرب کو تنہا کرنے کی کوشش کی‘

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ہماری خارجہ پالیسی کو بہت نقصان پہنچا۔ وی نیوز کے اس سوال پر کہ کیا بطور وزیراعظم انہیں کسی اور ملک سے بھی عمران خان کی حکومت کے حوالے سے شکایت موصول ہوئی جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’بے پناہ۔ ہمارے برادر ممالک سخت نالاں اور ناراض تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سعودی عرب جیسے ملک کے ساتھ بھی تعلقات خراب کیے۔ ’میں تفصیل میں تو نہیں جاسکتا لیکن دیکھیں سعودی عرب کو نیچا دکھانے کے لیے کوشش کی گئی کہ ایک بلاک بنایا جائے اور اس بلاک کے ذریعے سعودی عرب کو تنہا کیا جائے۔ یہ کتنا افسوسناک واقعہ ہے اور کتنی گری ہوئی سوچ ہے کہ دوست جو بغیر کسی شرط اور لالچ اور کسی بدلے کی توقع کیے آپ کو بھائی اور خاندان کی طرح مدد کرے اور ہم اسی کے ناشکرے اور احسان فراموش بن جائیں اور یہ کہیں کہ سعودی عرب کے بغیر ہم کشمیر کاز کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔‘

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’دونوں برادر ممالک میں اتنی خراب صورتحال کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا جو عمران نیازی کے دور میں ہوئی۔ ایک مثال ہے کہ جو انسان کا شکر ادا نہیں کرسکتا وہ خدا کا شکر کیسے ادا کرے؟

وزیراعظم نے پاکستان پر سعودی عرب کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کونسا موقع تھا اور مشکل تھی جس میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا ہو۔ کبھی زلزلہ آیا یا سیلاب تو سعودی عرب آپ کے ساتھ کھڑا ہوا اور بھائی کی طرح بھائی کا ساتھ دیا۔ اس سے اعلی مثال بھائی چارے کی کوئی نہیں ہوسکتی۔

بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟

وی نیوز نے وزیراعظم سے سوال پوچھا کہ بھارت کے ساتھ  کیسے تعلقات رکھنا چاہیں گے جس انہوں نے کہا کہ کشمیر کے منصفانہ حل کو تلاش کیے بغیر رابطے بحال نہیں ہوسکتے کیونکہ اپنے حق کے حصول کے لیے کشمیریوں کی عظیم قربانیاں ہیں اور 75 سالوں میں ہزاروں کشمیری ماؤں اور بیٹیوں کے آنچل پھٹے، بچے اور بزرگ شہید ہوئے اور کشمیر کی وادی ان کے خون سے سرخ ہوئی۔

وزیراعظم نے واضح کیا کہ کشمیریوں کا حق خودارادیت کا مسئلہ حل ہوئے بغیر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کس بھی طرح معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ ’میں نے صرف اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہمیں اچھے ہمسائے کی طرح رہنا چاہیے لیکن اس کے جو تقاضے ہیں جیسے کشمیر اور پانی کا مسئلہ ہے اور ان کو حل کیے بغیر حالات بحال نہیں ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ مسائل حل نہیں ہوئے تو بدقستمی کی بات ہوگی کہ اس خطے میں جہاں غربت اور بے روزگاری ہے وہاں ہم اپنے وسائل ترقی پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے دفاع کے لیے مہنگی مشینیں خریدیں پر لگائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp