پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق اور احتجاج میں شرکت کی پاداش میں گرفتار ہونے والے کمسن ارسلان نسیم کے والد کی موت دو روز سے معمہ بنی ہوئی ہے۔
معاملے پر تبصرہ کرنے والے مختلف افراد بشمول پی ٹی آئی ورکرز اور وکلا کا دعوی ہے کہ 13 یا 14 سالہ ارسلان نسیم کو نو مئی کے احتجاج کی پاداش میں تین ماہ قید رکھا گیا۔ عدالتی حکم پر رہا کو ارسلان گھر پہنچا تو پولیس پھر گرفتاری کے لیے پہنچ گئی۔
لاہور کے واقعے کا ذکر کرنے والوں نے دعوی کیا کہ پولیس پھر گرفتاری کے لیے گھر پہنچی تو ان کے والد یہ صدمہ نہ سہہ سکے اور حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔
ارسلان سٹوری کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ وہ نہ تو تحریک انصاف کے احتجاج میں گیا تھا اور نہ ہی اسکا لینا دینا تھا،، مبینہ طور پر پولیس نے بدینتی سے اسکے عسکری ٹاور مقدمہ میں نامزد کیا،، 13 یا 14 سالہ ارسلان کی کہانی حقیقت میں دل دہلا دینے والی ہے، پولیس نے جو اس معاملہ میں کردار…
— Shakir Mehmood Awan (@ShakirAwan88) August 14, 2023
کئی افراد نے اسے پولیس تشدد قرار دیا تو ارسلان نسیم کی ساتھ دوران حراست نازیبا سلوک کا دعوی بھی کیا۔ ایسے افراد کا کہنا تھا کہ معاملے کی فوری تحقیق کر کے متاثرہ فیملی کو انصاف دلایا جائے۔
https://twitter.com/jokkeerrr2/status/1691161714849427456
ارسلان نسیم کے معاملے پر مختلف طرح کی اطلاعات مسلسل سامنے آنے کے بعد لاہور پولیس نے اپنا موقف دیا تو تشدد سے ہلاکت کو ’پروپیگنڈا، من گھڑت کہانی، حقائق کے منافی اور بےبنیاد‘ قرار دیا۔
مائکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کردہ پیغام میں لاہور پولیس کا کہنا تھا کہ ’پولیس ذرائع نے سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم کے بارے وائرل ہونے والی ایک پوسٹ جس میں یہ غلط تاثر دیا گیا ہے کہ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والد ہلاک ہوئے کو پروپیگنڈا، من گھڑت کہانی، حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تشدد والی بات بالکل جھوٹ اور غلط ہے۔‘
پولیس ذرائع نے سوشل میڈیا پر ارسلان نسیم کے بارے وائرل ہونے والی ایک پوسٹ جس میں یہ غلط تاثر دیا گیا ہے کہ پولیس کے تشدد سے ارسلان کے والد ہلاک ہوئے، کو پروپیگنڈا، من گھڑت کہانی، حقائق کے منافی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تشدد والی بات بالکل جھوٹ اور غلط ہے۔
— Lahore Police Official (@Lahorepoliceops) August 14, 2023
لاہور پولیس کے مطابق ’بزرگ کی طبعی موت کو مختلف رنگ دے کر سوشل میڈیا کے ذریعے سننی پھیلانے کی ناکام کوشش کی گئی ھے آور بزرگ شہری کی تدفین بھی ہو چکی ھے۔‘
لاہور پولیس کے اس بیان کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آفیشل ہینڈل کی پوسٹ میں ’ذرائع‘ کے ذکر پر تعجب کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے لکھا کہ ’آپ ادھر ادھر بات نا گھمائیں اور ان سادے سے سوالات کا جواب دیں کہ کیا ارسلان نسیم کہ عمر 14 سال ہے؟ کیا آپ نے اسے 9 مئی کے حوالے سے گرفتار کیا؟ کیا اس 14 سال کے بچے کو رہائی 3 مہینے بعد ملی؟ کیا آپ نے اسے رہا ہونے کے بعد پھر گرفتار کیا؟ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں ہے تو ارسلان کے خاندان اور بالخصوص اس کے والد کو اذیت اور صدمے پہنچانے اور ان کی صحت اس حد تک خراب کرنے کی ذمہ دار پنجاب پولیس اور CCPO لاہور نہیں تو پھر کون ہے؟‘
آپ ادھر ادھر بات نا گھمائیں اور ان سادے سے سوالات کا جواب دیں کہ کیا ارسلان نسیم کہ عمر 14 سال ہے؟ کیا آپ نے اسے 9 مئ کے حوالے سے گرفتار کیا؟ کیا اس 14 سال کے بچے کو رہائی 3 مہینے بعد ملی؟ کیا آپ نے اسے رہا ہونے کے بعد پھر گرفتار کیا؟ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں ہے تو ارسلان کے… https://t.co/g2QMtUTrgc
— M. Jibran Nasir 🇵🇸 (@MJibranNasir) August 15, 2023
ایڈووکیٹ سلمان نے ارسلان نسیم کے والد کی تعزیت کے بعد گزشتہ روز جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں دعوی کیا تھا کہ پولیس نے بغیر کسی وارنٹ کے بچیوں کی موجودگی کے باوجود رات تین بجے گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا اور اس دوران تشدد کیا جس سے موت ہوئی۔ فیملی کو دھمکایا کہ کوئی شکایت نہیں کرنی اور انہیں مجبور کیا کہ متوفی کی تدفین فورا کریں۔