اللہ تعالی کی آخری کتاب میں مومنین کو ہدایت دی گئی ہے’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘
16 اگست بروز بدھ، صوبہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں توہین قرآن مجید کے واقعہ پر جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل سب کےعلم میں ہے۔
اس واقعہ کی بنیاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2 افراد نے نہ صرف اہانت آمیز پمفلٹس لکھے بلکہ قرآن مجید کی بے حرمتی بھی کی۔ اور پھر قرآن مجید کے اوراق مسلمانوں کے محلے میں پھینک دیے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے محلے میں ایک گلی کی نکڑ پر قرآن مجید کے چند اوراق پڑے ملے، ان کے ساتھ 2 افراد کی تصاویر بھی تھیں اوران کے گھر کا ایڈریس بھی دیا گیا تھا۔
میڈیا میں یہ بات بھی آئی کہ اہانت کے اس واقعہ کی شکایت درج کروائی گئی تھی لیکن پولیس نے اس پر کوئی کارروائی شروع نہ کی، نتیجتاً اشتعال پھیلا۔
اگر یہ بات درست ہے، تو اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ لوگوں نے قانون کو اپنا راستہ لینے کا موقع دیا تھا۔ لوگوں سے ہمیشہ ایسے ہی طرزعمل کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ تاہم برا پہلو وہی ہے کہ پاکستان میں اکثر واقعات میں پولیس تب حرکت میں آتی ہے، جب سوشل میڈیا پر خوب طوفان بپا ہوتا ہے اور اشتعال پھیل جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی اور آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹرعثمان انورکے بیانات کی روشنی میں خبر اس حد تک مصدقہ ہے کہ توہین قرآن مجید ہوئی، ان کے بقول توہین کرنے والے دونوں مرکزی ملزمان گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اشتعال انگیزی کے ذمہ دار 2 ہی افراد تھے۔ اور یقیناً ان دونوں افراد کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
دنیا میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے بعض گھرانوں میں ایسے افراد پیدا ہوتے ہیں جو اسلام، عیسائیت اور یہودیت سمیت ہر دین اور مذہب سے بیزار ہوتے ہیں، بہ الفاظ دیگر وہ شیطان کے پیروکار ہوتے ہیں۔ شیطان کسی ایک ایسے نظریے کو نہیں مانتا جس کی معراج پر خدا کا وجود ہو۔
کسی مذہب کی تعلیمات پر ایمان رکھنے یا نہ رکھنے، عمل کرنے یا نہ کرنے پر ایک فرد کی مرضی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن مذاہب اور مذہبی شعائر کی توہین کرنا سراسر فتنہ و فساد ہے۔ درحقیقت شیطان کا کام ہی فتنہ و فساد پھیلانا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بار شیطان نے ایک ایمان والے سے کہا کہ آؤ ! آپ کو میں اپنا ایک کرشمہ دکھاتا ہوں۔ اس نے قریب ہی ایک حلوائی کی دکان سے شیرہ انگلی پر لگایا۔ اور اسے دیوار پر لگادیا۔ وہاں ایک مکھی آ بیٹھی، مکھی کو ہڑپ کرنے کی خاطر ایک چھپکلی ادھر جا پہنچی۔ چھپکلی پر بلی کی نظر پڑی تو وہ اس پر جھپٹی اور بلی پر کتے نے چھلانگ لگا دی۔
حلوائی نے کتے کو اپنے دکان کے بہت قریب دیکھا تو اس نے کتے کی کمر پر ایک موٹا سا ڈنڈا رسید کردیا۔ کتے کی چوؤں چوؤں سن کر اس کا مالک آن پہنچا۔ اس نے حلوائی کا گریبان پکڑ لیا، دونوں گتھم گتھا ہوگئے۔ پھر دونوں نے ڈنڈے اٹھا لیے، اور ایک دوسرے پر برسانے لگے۔ اسی اثنا میں دونوں کے حامی بھی لڑائی میں کود پڑے۔ 3،2 لاشیں گریں تو واقعہ ایک بڑے فساد کی شکل اختیار کرگیا۔ اور پھر فساد بڑھتا ہی چلا گیا۔
اس پر ایمان والے نے شیطان کی طرف دیکھا۔ شیطان لعین انتہائی مکروہ انداز میں ہنس رہا تھا اور کہنے لگا:’میں نے تو دیوار پر معمولی شیرہ لگایا تھا‘۔
مذاہب اور مذہبی شعائر کی توہین کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ ’آزادی اظہار‘ کا حق استعمال کرتے ہیں حالانکہ وہ آزادی اظہار کے نام پر سراسر اشتعال انگیزی اور فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں اور مکروہ ہنسی ہنستے ہیں۔
کسی بھی نظریہ اور مذہب میں، دنیا کے کسی بھی قانون میں اشتعال انگیزی اور فتنہ و فساد کی گنجائش ہرگز نہیں ہوتی کیونکہ آزادی اظہار اور اشتعال انگیزی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ اپنے بیانیہ کا پرچار کرسکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کے جذبات کو مجروح نہیں کرسکتے۔
جڑانوالہ میں مبینہ طور پر 2 افراد نے اہانت کا ارتکاب کیا، برا کیا۔ اہانت کے واقعہ کی شکایت پر پولیس حرکت میں نہیں آئی تو اس نے مزید برا کیا۔ مشتعل ہجوم نے چرچ جلائے، عیسائیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا تو اس سے بھی زیادہ برا کیا۔ تینوں قابل گرفت ہیں، انتہائی کڑی سزا کے مستحق ہیں۔
قانون بروقت حرکت میں آتا، اہانت کے اس واقعہ کی تفتیش کی جاتی، ثابت ہونے پر مرتکب افراد کو حراست میں لے لیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ پھر جہالت اور اشتعال یوں ننگا رقص نہ کرپاتا۔
تاہم یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قرآن مجید کے اوراق کی بے حرمتی کرنے والوں کی تصاویر، نام اور ایڈریس بھی وہاں موجود تھا، اگر یہ خبر درست ہے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ کسی شیطان نے شیرہ دیوار پر لگایا تھا۔ چرچ اور عیسائی محلے پر چڑھائی کرنے والوں نے اس پہلو پر سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی، یوں وہ ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے۔
یہ بھی افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے سراغ رساں ادارے شیرہ لگانے والوں کا پتہ چلانے میں ہمیشہ پہلوتہی کرتے ہیں یا پھر ناکام ہوتے ہیں۔ کیا شیرہ لگانے کا عمل اس قدر معمولی ہے کہ اسے نظرانداز کیا جائے؟ کیا کسی کو اندازہ نہیں کہ اس کے نتیجے میں بپا ہونے والا فساد کس قدر غیرمعمولی ہوتا ہے؟ اس کے باوجود ہر بار مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا اعزاز ہے کہ یہاں دیگر اہل مذاہب کے خلاف ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر جرائم بھارت میں ہونے والے ایسے ہی جرائم کا 100 واں حصہ بھی نہیں ہیں۔ یونائیٹڈ کرسچن فورم کے مطابق 2014( جب سے نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں) سے 2022 تک ، بھارت میں عیسائی برادری کے خلاف مجموعی طور پر 2700 سے زیادہ پرتشدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ بی جے پی کے پہلے دور حکومت(1998 سے 2004 تک) میں عیسائی برادری کے خلاف1000 سے زائد پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
یونائیٹڈ کرسچین فورم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کے گزشتہ6 مہینوں میں ہندوستان کی 23 ریاستوں میں عیسائی برادری کے خلاف پُر تشدد واقعات 400 سے تجاوز کر گئے۔ صرف جون کے مہینے میں اوسطاً 3واقعات روزانہ رونما ہوئے جبکہ کل88واقعات رپورٹ ہوئے۔
بھارت کے مذکورہ بالا اعدادوشمار پیش کرنا اپنے ہاں رونما ہونے والے واقعات کو جواز بخشنا نہیں ہے۔ ہم اس اعزاز پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں غیرمسلموں کے خلاف جرائم بھارت کی نسبت بہت کم ہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسا ایک بھی واقعہ رونما نہ ہو تاکہ ہم اپنے معاشرے پر مزید فخر محسوس کریں۔
فرد ہو یا گروہ، اسے ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے کچھ دیر واقعہ کے تمام پہلوؤں پر سوچنا چاہیے۔ قرآن مجید کی یہ ہدایت صرف اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں ہی کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے ہر فرد کے لیے مفید ہے کہ ’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘