نگراں حکومت نے کہا ہے کہ صدر مملکت وفاق کا سربراہ ہوتا ہے، اس عہدے کا احترام لازم ہے ایسا قطعاً نہیں چاہییں گے کہ ایوان صدر جا کر ریکارڈ قبضے میں لیں۔ اگر صدر 10 دن میں بل منظور یا مسترد نہیں کرتے تو یہ خود بخود قانون بن جاتا ہے۔
اسلام آباد میں نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ صدر کے پاس دو اختیار ہوتے ہیں یا کسی بل پر دستخط کر دیں یا پھر تحریری اعتراضات لگا کر بل ترمیم کے لیے واپس بھیجیں۔
مزید پڑھیں
نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کے پاس دوسرے اختیار میں اہم بات یہ ہے کہ بل پر اپنے مشاہدات تحریری طور پر درج کر کے واپس بھیج دیں، 2 اگست کو آرمی ترمیمی بل صدر مملکت کو بھیجا گیا تھا جب کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا بل 8 اگست کو موصول ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت صدر پارلیمان سے آئے بلوں پر دو اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ اایوان صدر سے بل واپس موصول ہی نہیں ہوئے تو صدر کے اعتراض کا کیسے پتا چلے گا۔ 10 دن کی مدت میں صدر نے نہ بل پر دستخط کیے نہ ہی مشاہدات درج کر کے واپس بھیجے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر کو 10 دنوں میں ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اگر صدر 10 دن میں بل منظور یا مسترد نہیں کرتے تو یہ خود بخود قانون بن جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا قطعاً نہیں چاہییں گے کہ ایوان صدر جا کر ریکارڈ قبضے میں لیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں سیاسی گفتگو کرنے نہیں بلکہ حقائق اور قانون بیان کرنے آئے ہیں، صدر مملکت نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا اگر کوئی ابہام تھا بھی تو وزارت قانون کے پریس ریلیز اور وزیر قانون کے مؤقف سے دور ہو گیا۔ اایوان صدر سے بل واپس موصول ہی نہیں ہوئے تو صدر کے اعتراض کا کیسے پتا چلے گا۔ 10 دن کی مدت میں صدر نے نہ بل پر دستخط کیے نہ ہی مشاہدات درج کر کے واپس بھیجے۔
وزیر قانون کا کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل یکم اگست کو قومی اسمبلی نے منظور کر کے سینیٹ کو بجھوایا۔ جب صدر ممکلت کو پاسکتان آرمی ( ترمیمی ) بل 2023، 2 اگست کو موصل ہوا جب کہ پاکستان آرمی ترمیمی بل 27 جولائی کو سینیٹ اور 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے منظور کیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل 2 اگست کو صدر مملکت کو بھیجا گیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ نگراں حکومت کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ سیاسی گفتگو نہیں حقائق اور قانون کی بات کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ صدر استعفا دیں گے یا اپنے عہدے پر موجود رہیں گے اس کا علم نہیں۔ میں صدر مملکت سے کہنا چاہتا ہوں کوئی بھونچال نہیں آ رہا۔ ضروری ہے کہ قانونی نکات کی وضاحت کی جائے۔ اگر اس سے متعلق کوئی ابہام تھا تو وہ وزارت قانون کی پریس ریلیز کے بعد ختم ہو گیا ہے۔ رہی سہی کثر آج نگراں وزیر قانون عرفان اسلم نے بتا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت اس عہدے پر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں رہنا چاہتے اس سے متعلق ان کی کیا منشا اور مرضی ہے، ہمیں ان کی ایسی کیسی خواہش کا کوئی علم نہیں ہے۔