پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اگر ہماری جماعت نے پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے 18 ماہ اقتدار سنبھالا تو اس کی قیمت بھی ادا کی، یقیناً عوامی سطح پر جماعت کو نقصان پہنچا لیکن اگر عمران خان کی حکومت جاری رہتی تو ملک ڈیفالٹ کر چکا ہوتا۔
ان کا کہنا تھا مارچ تک عام انتخابات ہوتے اور نواز شریف کو چوتھی بار ملک کا وزیراعظم بنتا دیکھ رہا ہوں۔
میاں نواز شریف کی قربت سیاست میں لائی
ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ استاد، صحافی اور سیاستدان کی تکون کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا، میں شعبہ تدریس میں اس لیے آیا کہ والدین کا پاس ذرائع، وسائل اور اتنا پیسہ نہیں تھا کہ مجھے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھاتے، میٹرک کرنے کے بعد حکم ہوا کہ اب کام کاج کریں، تو یوں پرائمری اسکول ٹیچر کا کورس کرکے پرائمری اسکول میں استاد بن گیا۔
میں یکسانیت سے اُکتا گیا تھا
پھر اپنا پڑھائی کا شوق بھی ساتھ ساتھ پورا کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کیا۔ یوں بیس پچیس برس درس و تدریس میں گزارے، دراصل میں یکسانیت سے اُکتا گیا تھا، ایک جیسی کتابیں اور شعرا پڑھا پڑھا کر اکتاہٹ محسوس ہوئی تو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لیکر میں کوچہ صحافت میں آگیا۔
کالموں کے توسط سے میاں نواز شریف سے رفاقت اور قربت بڑھی
کالم نگاری سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کالم نگاری کے طویل سفر میں کئی اخبارات کے پڑاؤ آئے، اسی دوران ایک انٹرویو کے سلسلے میں رفیق تارڑ صاحب سے ملاقات ہوئی جو رفاقت میں بدل گئی اور پھر جب وہ صدرِ پاکستان بنے تو انہوں نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا کہا، جہاں سے میرا نیم سیاسی سفر شروع ہوا۔ اسی دوران کالموں کے توسط سے میری میاں نواز شریف سے رفاقت اور قربت بڑھی، جسے اب قریباً 24 برس ہونے کو ہیں، وہی قربت مجھے سیاست میں لے آئی۔
تدریس اور کالم نگاری کو مِس کرتا ہوں
عرفان صدیقی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بحیثیت استاد، صحافی اور سیاستدان پر مشتمل ان تینوں ادوار کا موازنہ نہیں کرتا، ہر ایک کی اپنی کشش اور ذائقہ ہے۔ اب سیاست میں ہوں لیکن تدریس اور کالم نگاری کو مِس کرتا ہوں۔ آج میں جہاں ہوں (ایوان بالا، سینیٹ آف پاکستان) وہاں میری آواز سے کچھ فرق پڑتا ہے تو اچھا لگتا ہے کہ ہماری آواز سنی جاتی ہے۔ شوقِ رفتہ کی تکمیل کے لیے کبھی کبھار کالم بھی لکھتا رہتا ہوں۔
میاں شریف نے رفیق تارڑ کو مستعفی ہونے سے روکا تھا
12 اکتوبر 1999 کا وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے صدر پاکستان رفیق تارڑ کو ملاقات کے لیے آنا تھا، بطور پریس سیکرٹری میری ذمہ داری تھی کہ ملاقات کی خبر بنائی جائے، اتفاق سے انہی دنوں میرے بیٹے کی شادی تھی، سو میں نے کچھ سینیئر افسران کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ مجھے ملاقات کی رپورٹ گھر بھجوادیں تاکہ پریس ریلیز میں خود تیار کروں، لیکن ملاقات میں خاصی تاخیر ہوتی جا رہی تھی، طے شدہ وقت سے قریباً سوا گھنٹہ زائد بیت چکا تھا۔
تاہم خاصی تاخیر کے بعد وزیراعظم، صدر سے ملنے ان کے گھر آئے، ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس فائل میں کیا ہے۔ ملاقات ہونے کے بعد میری ٹیم میرے گھر پہنچی اور ملاقات کی تفصیل دی۔ میں نے کہا کہ میری بات وزیراعظم کے پریس سیکرٹری رائے ریاض سے کروائیں، ان سے بات ہوئی تو پتا چلا خبر چلی ہے کہ آرمی چیف کو بدل دیا گیا ہے اور فلاں آرمی چیف آ گئے ہیں۔
مجھے انقلاب کے آثار دکھائی دیے
اس اہم تبدیلی کا علم صدر پاکستان کو بھی نہیں تھا، چونکہ میں نے شادی کے کچھ کارڈز تقسیم کرنے تھے اس لیے میں گھر سے نکل گیا، لیکن جب واپس لوٹا تو مجھے انقلاب کے آثار دکھائی دیے، پارلیمنٹ ہاؤس سے ایک گیٹ ایوان صدر میں کھلتا ہے، وہاں کچھ فوجی کھڑے تھے، انہوں نے مجھے اندر جانے سے روک دیا تھا، میں نے کہا کہ اندر میرا گھر ہے، گھر والے ہیں، میں باہر کہاں رات گزاروں گا، اس پر فوجی نے کہا کہ اس کے لیے اجازت لینا پڑے گی، قصہ مختصر مجھے اجازت ملی میں گھر پہنچا تو سارے فون کیبلز کٹے پڑے تھے۔
جنرل مشرف کی صدر پاکستان کو ہدایت
کسی سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لیے میں صدرِ پاکستان کے ملٹری سیکرٹری ساہی صاحب کے پاس چلا گیا تاکہ کچھ تفصیلات معلوم ہوں سکیں، وہ مجھے صدر رفیق تارڑ صاحب کے پاس لے گئے، وہاں گورنر سندھ ممنون حسین کا عشائیہ تھا، ہم وہاں بیٹھ گئے۔ اسی دوران صدر تارڑ کو جنرل پرویز مشرف کا فون آیا کہ آپ مجھ سے ملے بغیر کوئی بات یا فیصلہ نہ کریں۔ لمبی کہانی ہے، ہم صدر پاکستان سمیت کئی روز محاصرے کی کیفیت میں رہے۔
صدر رفیق تارڑ کا چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط
صدر رفیق تارڑ صاحب نے مستعفی ہونے کا ارادہ کر لیا تھا اور مجھ سے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک خط بھی لکھوایا تھا کہ وہ اس غیر آئینی اقدام کے خلاف نوٹس لیں۔ صدر اسی روز پریس کانفرنس کرکے استعفے کا اعلان بھی کرنے والے تھے کہ میاں شریف صاحب (نواز شریف کے والد) کا فون آیا اور انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ استعفی نہ دیں۔ پھر یوں رفیق تارڑ صاحب نے مزید کچھ سال ایوان صدر میں گزارے۔
مجھے آج تک پتا نہیں چل سکا مجھے کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟
عرفان صدیقی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 4 برس گزرنے کے بعد بھی میرے علم میں نہیں آ سکا کہ مجھے گھر سے کیوں اٹھایا گیا تھا۔ میرے گلی پولیس کی گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی، سفید ملبوس افراد مجھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے، ہتھکڑی لگائی گئی۔ اسی دوران میری بیگم نے بات کرنا چاہی تو انہیں بھی دھکے دیے گئے وہ گر گئی تھیں۔ مجسٹریٹ صاحب نے 14 دن کے لیے جیل بھجوا دیا تھا۔
اسی تناظر میں، میں نے ایک بل بھجوایا، کہ اسلام آباد میں اس طرح حراست میں لینے کا عمل بدلا جائے۔ ضابطہ فوجداری بل 2022 کے لیے میں نے پارلیمان کی کئی جید قانون ساز شخصیات سے رائے لی تھی۔ بل پیش کیا تو اس وقت کے وزیر علی محمد خان نے کہا کہ بل پر ہمارے کچھ تحفظات ہیں لیکن بل چونکہ استادِ محترم کی طرف سے ہے اس لیے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔
صدر کی منظوری یا توثیق کے لیے بھجوایا گیا بل لاپتا ہوگیا
کمیٹی میں بل کو سراہا گیا، ایک 2 معمولی تبدیلیوں کے بعد کمیٹی نے بل کی منظوری دیکر اسے واپس سینیٹ بھجوا دیا، جہاں اس بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تھا۔ بل کو قومی اسمبلی سے بھی منظور کر لیا گیا تھا، پھر 21 جون 2022 کو بل صدر کی منظوری یا توثیق کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد نہیں پتا کہ وہ بل کہاں گیا؟ پارلیمنٹ قوانین کی ماں ہے کسی کو فکر نہیں کہ اس ماں کا بچہ 14 ماہ سے کہاں غائب ہے۔
ستمبر کے اواخر یا اکتوبر کے آغاز میں نواز شریف کو پاکستان آنا چاہیے
میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ حالاتِ حاضرہ اور آنے والے دنوں کا تجزیہ کیا جائے تو مجھے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کو ستمبر کے اواخر یا اکتوبر کے آغاز میں پاکستان آنا چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ جب انہیں اور مریم کو سزا سنائی گئی وہ لندن میں تھے، انہوں نے مجھے بلوایا، ان دنوں بیگم کلثوم نواز بہت بیمار تھیں۔ وہاں پاکستان واپسی کی بات ہوئی تو ان کی فیملی کے علاوہ صرف میں تھا لیکن تمام بحث مباحثے اور بیگم کلثوم نواز کے بسترِ مرگ پر ہونے کے باوجود میاں نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ واپس جائیں گے اور قانون کا سامنا کریں گے۔
باپ بیٹی جیل چلے گئے، میاں نواز شریف کو ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں بند کیا گیا جہاں انہوں نے ایک چٹائی پر کئی راتیں گزاریں۔
اول و آخر ترجیح پاکستان ہے
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ نواز شریف کی واپسی کسی کے جانے یا آنے سے جڑی ہے، ایک چیف جسٹس نے جانا ہے تو نئے نے آنا ہے، چیف جسٹس بدلتے ہیں لیکن آئین و قانون وہی رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی اول و آخر ترجیح پاکستان ہے۔
جب نواز شریف نے کہا برگیڈیئر صاحب میں بھاگنے والا نہیں
جن دنوں طاہرالقادری اور عمران خان نے ریڈ زون میں دھرنا دے رکھا تھا، ایک روز میں اور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ وزیراعظم کے ہمراہ بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ملٹری سیکرٹری اچانک گھبرائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور کہا کہ دھرنے والے بلوائیوں نے وزیراعظم ہاؤس کے مرکزی داخلی گیٹ پر حملہ کر دیا ہے۔ اب وہاں سے آمد و روفت مشکل ہوگی، آپ کے لیے ہیلی کاپٹر تیار ہے، آپ لاہور چلے جائیں۔ میاں نواز شریف نے انتہائی اطمینان سے کہا برگیڈئیر صاحب آپ تشریف رکھیں اور چائے پیئیں، اس طرح وزیراعظم نہیں بدلتے، کہ وہ مجھے کرسی سے اٹھا کر اپنا بندہ بٹھا لیں گے، میں بھاگنے والا نہیں ہوں۔
جنرل باجوہ اور ان کے دوستوں کا پراجیکٹ عمران خان کے ساتھ ظلم تھا
جنرل مشرف سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاالحق کو قومی پرچم میں سُپردِ خاک کیا گیا لیکن پرویز مشرف کو آرٹیکل 6 کا سامنا کرنا پڑا، اس کا کریڈٹ تو آپ دیں مسلم لیگ (ن) کو ، آپ دیکھ لیں ہماری تاریخ آگے بڑھی ہے اور آگے بڑھے گی، یہ باب اب بند ہو گیا اور اب یہ کھلنے والا نہیں ہے۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور ان کے دوستوں کا پراجیکٹ عمران خان کے ساتھ ظلم تھا۔ جب 2017 میں نوازشریف کو دھکا دیکر نکالا گیا تو اس وقت ملک ترقی کر رہا تھا، اب ہم بیٹھ کر ان کرداروں کو مطعون کر رہے ہیں تو یہ بھی ان کے لیے سزا ہے۔
ایک سا موسم نہیں رہتا اگر چلتے رہو
انٹرویو کے اختتام پر ’وی نیوز‘ نے جناب عرفان صدیقی کے شعری ذوق کی رعایت سے پسندیدہ اشعار سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے اپنی ایک غزل کے درج ذیل اشعار نذرِ قارئین کیے:
ایک میں، اک بھیگتی یادوں سے جل تھل چاندنی
رنگ میں ڈوبی ہَوا، خُوشبو سے بوجھل چاندنی
اک سراسیمہ مسافر، راستہ بھولا ہوا
دور تک پھیلی گھنی یادوں کا جنگل، چاندنی
بند دروازوں پہ کیوں دستِ حنائی کی طرح
دستکیں سی دیتی رہتی ہے مسلسل چاندنی
رات کا پچھلا پہر اور مُشکبو یادوں کی آنچ
دل میں جیسے مار کے بیٹھی ہے بُکل چاندنی
چاند گرہن کو لگے کتنی ہی راتیں ہو چلیں
خود سے چُھپتی پھر رہی ہے نیم پاگل چاندنی
ایک سا موسم نہیں رہتا اگر چلتے رہو
آج سر پہ چلچلاتی دھوپ ہے کل چاندنی