ایک ایسے وقت کہ جب دنیا بھر میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کے شکار افراد کے ساتھ یکجہتی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف تشدد میں ہندوستان پیش پیش ہے، جہاں آزادی سے اب تک 93 ہزار 647 مسلم کش واقعات میں 5 لاکھ سے زائد مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق 1989 میں بہار، 2002 میں گجرات اور 2020 میں دہلی فسادات کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا دوسری جانب عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم بھی رواں سال کے پہلے 6 مہینوں میں 400 سے تجاوز کر گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 1998 میں گجرات، 2008 میں اڑیسہ اور حالیہ منی پور فسادات میں ہزاروں عیسائی انتہا پسندوں کے ہاتھ جاں بحق ہوئے ہیں۔ اوپن ڈورز آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ عیسائیوں کے خلاف تشدد میں ہندوستان 2014 میں 28ویں نمبر سے 2022 میں 10ویں نمبر پر آ چکا ہے۔
1984 میں جموں، 1969 میں گجرات اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ فسادات کے دوران ہزاروں سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے خلاف ڈھائی لاکھ سے زائد نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
این بی سی نیوز کے مطابق مودی کے اقتدار میں آنے بعد دلتوں کے خلاف جرائم میں 66 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2000 میں کرناٹکا اور 2012 میں تامل ناڈو فسادات کے دوران ہزاروں دلت ہندوؤں کو اونچی ذات کے ہندوؤں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں اوسطاً ہر پانچ منٹ بعد مسلمانوں، دس منٹ بعد دلتوں اور 12 منٹ بعد عیسائیوں کے خلاف تشدد کا جرم وقوع پذیر ہوتا ہے،
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق مودی سرکار شہریت، گاؤ رکشھا، بلڈوزر پالیسی اور حجاب بندی سے متعلق قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو ریاستی سطح پر نشانہ بنا رہی ہے، جبکہ ٹرکش ریڈیو اینڈ ٹی وی کا کہنا ہے کہ بی جے پی مذہب تبدیلی قانون سے عیسائیوں جبکہ کسان مخالف پالیسیوں سے سکھوں کو دانستہ نشانہ بنا رہی ہے۔