برسوں پرانا کورس: آرٹیفیشل انٹیلیجینس میں پاکستان طلبہ پیچھے کیوں؟

جمعہ 25 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں عوام کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تعلیم، صنعت، صحت، خدمات، اور تجارت کے مختلف شعبوں میں آئندہ دہائیوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے مگر پاکستان میں تعلیمی سطح پر برسوں پرانا کورس پڑھایا جا رہا ہے جو آنے والے وقت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایکسپرٹ اسامہ احمد نے کہتے ہیں اگر میں آے آئی کی اہمیت کے حوالے سے بات کروں تو ایپل کی ایک ریسرچ کے مطابق اگلے 3 برس کے اندر دنیا کے 40 فی صد لیبر کو اپنی اسکلز بدلنا پڑیں گی، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں اے آئی کی وجہ سے کتنی زیادہ تبدیلیاں آنے والی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یو بی ایل کی ویب سائٹ پر ان کا ایک اے آئی چیٹ باکس موجود ہے جو آپ کے سوالات کا مکمل طور پر جواب دیتا ہے۔ میں خود بھی پاکستان کی بڑی کمپنیوں کے لیے کسٹمر سپورٹ کے پراڈکٹ تیار کر رہا ہوں جو صارف کو ہر طرح کی سہولت کے حوالے سے آگاہ کرے گا اور میرے خیال میں پاکستان بے شک مغربی ممالک سے پیچھے ہے مگر پھر بھی اے آئی کی ہوا کا رخ یہاں بھی اتنا ہی تیز ہے جتنا مغربی ممالک میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کچھ وقت میں سارا نظام آٹومیٹک ہوجائے گا، اب بھی پاکستان میں جہاں ممکن ہے، وہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال ہورہا ہے، انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر بچوں کی بات کی جائے جو بچے موبائل پر ٹائپنگ نہیں کر سکتے وہ مائیک کے آپشن کو استعمال کرتے ہوئے بول کر کمپیوٹر کو اپنی انسٹرکشن دیتے ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اے آئی اردو زبان کو بھی سمجھتا ہے۔ آنے والے وقت میں ہر جگہ آپ انہیں اردو زبان بولتے بھی دیکھیں گے اور اس کی مثال پاکستان کے اے آئی اینکرز ہیں۔ پاکستان میں بھی وہ وقت دور نہیں ہے جب آپکو ہر جگہ اے آئی سے بنے ماڈلز ہی نظر آئیں گے۔

پاکستان میں پڑھایا جانے والا اے آئی کورس برسوں پرانا ہے

اسامہ احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں کے حوالے سے بات کریں تو پاکستان میں صرف 2 یونیورسٹیاں اے آئی میں پی ایچ ڈی کروا رہی ہیں اور جہاں تک گرایجویشن لیول پر یونیورسٹیز میں اے آئی کا کورس پڑھایا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے میری یہ رائے ہے کہ یونیورسٹیز کا کورس تو پہلے ہی اتنا پرانا ہوتا ہے اور اس ٹیکنالوجی کی ہر لمحے بدلتی دنیا میں ہر روز ایک نیا اے آئی کا ماڈل سامنے آتا ہے اس حساب سے تو ویسے ہی ہم بہت پیچھے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کی بڑی پرائیویٹ یونیورسٹیز میں بھی 5 سال پرانا کورس پڑھایا جا رہا ہے اور وہ 3 سال میں صرف طلبہ کو بہت ہی بنیادی چیزیں پڑھا رہے ہوتے ہیں۔

جو طلبا سمجھتے ہیں کہ وہ مارکیٹ میں جاتے ہی بہت بڑے اے آئی ڈیویلپر بن جائیں گے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ جتنے برس میں انہیں بد قسمتی سے اے آئی کی بنیاد پڑھائی جائے گی اتنے میں دنیا بدل چکی ہوگی اور ان بچوں کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوں گے۔

پاکستان کا ان اسکلڈ لیبر بہت جلد واپس آ جائے گا

اسامہ احمد نے بتایا کہ اس وقت دبئی 216 سیلف ڈرائیونگ کارز منگوا چکا ہے، یہ تعداد بہت کم ہے ایسا نہیں ہے کہ وہ مزید نہیں خرید سکتا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ٹیسلا اور سیلف ڈرائیونگ کارز بنانے والی کمپنیاں اتنی تیزی سے کارز بنا نہیں پا رہیں، ورنہ دبئی کے لیے کیا رکاوٹ ہوگی وہ تو 20 ہزار بھی منگوا لیں گے۔

یہاں اس بات کا مقصد یہ ہے کہ دبئی میں زیادہ تر ڈرائیورز پاکستانی ہیں اور آنے والے وقت میں ان تمام ان اسکلڈ لیبر کی ایک بڑی تعداد پاکستان واپس آجائے گی کیونکہ دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں بڑے پیمانے پر اس پر کام نہیں ہو رہا ہے۔

کونسی یونیورسٹیز آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں گرایجویشن کروا رہی ہیں؟

پاکستان میں اس وقت 10 سے زائد یونیورسٹیاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں گرایجویشن کروا رہی ہیں، ان یونیورسٹیز میں عبدالولی خان یونیورسٹی، ایئر یونیورسٹی، کامسیٹس یونیورسٹی، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلامیہ یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیز شامل ہیں۔

اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے اے آئی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں اے آئی کی دوڑ بہت تیز ہوتی جا رہی ہے، مگر پاکستان میں یہ رفتار بہت آہستہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے بچے بیرون ملک رخ کر رہے ہیں، ہم تھرڈ ورلڈ ممالک میں شمار ہوتے ہیں اور ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی ہمارے ساتھ ہے مگر بھارت مغربی ممالک کی اڑان کا مقابلہ کرنے کا ٹھان چکا ہے اور وہاں اے آئی کے متعلق بہت کام ہو رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہماری یونیورسٹیز میں بھی جدید ڈیجیٹل لیبز موجود نہیں، ہم بچوں کو تھیوری زیادہ اور پریکٹیکل کم پڑھا رہے ہیں، بدقسمتی سے میں بھی اسی فیکیلٹی کا حصہ ہوں جو وہی کورس پڑھانے پر مجبور ہے جو طلبا کو صرف بنیادی اسکلز ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ایک استاد تو اپنے طلبا کو جدید چیزیں پڑھانا چاہتا ہے مگر اتنے وسائل موجود نہیں، صرف یہی نہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ تر فیکیلٹی ممبر خود بھی اس میں تجربہ کار نہیں ہیں تو بچوں کو کیسے مستقبل کی اس ٹیکنالوجی کی جنگ کے لیے تیار کر سکیں گے مگر اچھے کی امید ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیز اپنے تعلیمی نظام کو جدید بنائیں تاکہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ہم بھی دنیا میں مثالیں قائم کر سکیں۔

پاکستانی طلبا پڑھائی اور ڈگری کے نام پر وقت ضائع کر رہے ہیں

محمد حمزہ اس وقت یورپ کی ایک یونیورسٹی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں گرایجویشن کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں انہوں نے پہلے پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی میں اے آئی کے کورس میں داخلہ لیا تھا اور انہوں نے پاکستان میں قریباً 3 سمسٹرز پڑھے تھے جس کے بعد انہوں نے یورپ کی جانب رخ کیا، کیونکہ ان کے ایک کزن یورپ کی اسی یونیورسٹی سے گرایجویشن کر رہے تھے، حمزہ اپنے کزن سے ان کی پڑھائی کے متعلق جب پوچھتے تو انہیں ان چیزوں کے بارے میں علم بھی نہیں ہوتا تھا جو حمزہ کے کزن کو پڑھائی جا رہی تھیں۔

حمزہ کہتے ہیں جب میں اس کی پڑھائی کے متعلق جانتا تو مجھے ڈپریشن شروع ہو جاتا تھا جس کے بعد میں نے یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ جو چیز میں نے پہلے 3 سمسٹر میں پاکستان میں پڑھی تھی وہ یہاں آکر پہلے سمسٹر کے ایک کورس میں پڑھی بلکہ اس سے بھی ایڈوانس چیزیں میں نے ایک سمسٹر میں سیکھیں، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ تھا، مگر مجھے اپنے تمام ساتھیوں کے لیے افسوس ہوتا ہے کہ وہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے صرف پڑھائی اور ڈگری کے نام پر وقت ضائع کر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp