ورلڈ مائناریٹیز الائنس کے کنوینر اور سابق وفاقی وزیر جے سالک نے جڑانوالہ سانحہ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے دلخراش واقعات ماضی میں بھی ہوئے لیکن اس بار علماء سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگ اقلیتوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور وزیر اعظم، آرمی چیف، اور نامزد چیف جسٹس کے علاوہ دیگر حکومتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات کی جانب سے متاثرین کی ڈھارس بندھانا انتہائی خوش آئند ہے۔
وی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے جے سالک کا کہنا تھا کہ نسل پرستی اور ذات پات کا نظام ہندو مت میں ہے جبکہ اسلام اس کی مکمل نفی کرتا ہے۔
مذہبی ہم آہنگی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب عیسائیوں کا وفد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ان کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی اور اسی موقع پر آپؐ نے ان عیسائیوں کے ساتھ میثاق کیا جس میں عیسائیوں کی جان، مال، عزت اور عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے کے عمل کو نبیؐ کی نافرمانی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حضورﷺ کے اس عہد نامے کے بارے میں آگاہی پھیلانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟
جڑانوالہ جیسے واقعات کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے اقلیتی رہنما کا کہنا تھا کہ ایسے سانحات قانون کی کمزوری اور نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیگر فوجداری قوانین کی طرح توہین مذہب کے کیسز میں بھی جرم ثابت ہونے اور انصاف کو اپنا رستہ لینے دیا جانا چاہیے۔
جے سالک نے کہا کہ الزام لگنے والے کے انکار اور اقرار پر کیس بننا چاہیے کیونکہ کوئی بھی اسلام کی بے حرمتی نہیں کر سکتا اور اکثر الزامات بے بنیاد ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس پر توہین ثابت ہوجائے اسے پھانسی دی جانی چاہیے تاکہ جڑانوالہ جیسے واقعات کا تدارک ہو۔
جے سالک کا یہ بھی ماننا تھا کہ اس طرح کے واقعات میں بیرونی ہاتھ کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور قوم کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر اس طرح کی صورتحال پیدا کر کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرتے ہیں۔
‘پاکستان اقلیت کے لیے بنایا گیا’
جے سالک نے کہا کہ پاکستان لاکھوں قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کیا گیا ہے اور یہ ملک کسی ایک گروہ کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک اقلیت نے کم ظرف اکثریت سے پیچھا چھڑانے کے لیے بنایا تھا کیونکہ مسلمانوں کی طرح عیسائی اور شودر بھی ہندوؤں سے نجات چاہتے تھے۔
بڑی سیاسی جماعتیں کہاں ہیں؟
نگراں وزیر اعظم انوارالحق اور نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جڑانوالہ کے دوروں کا خیر مقدم کرتے ہوئے جے سالک نے کہا کہ جب یہ دونوں شخصیات متاثرین سے اظہار یکجہتی کرنے جا سکتی ہیں تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کہاں ہے؟
انہوں نے ان سیاسی جماعتوں کی جانب سے جڑانوالہ کا دورہ نہ کرنے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ انہیں بھی علمائے دین کی طرح متاثرین کا غم بانٹنے جانا چاہیئے تھا۔
‘اتحاد و یگانگت ایسے سانحات کے سدباب کے لیے ضروری ہے’
جے سالک کا کہنا تھا کہ جڑانوالہ جیسے سانحات کو روکنے کے لیے ہمیں تفریق سے بالاتر قوم بننا ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نسلی، لسانی، علاقائی، اور مذہبی امتیازات کو مٹا کر نفاق کا راستہ روکنا ہوگا تاکہ قومیت اور ملکی شناخت کو فروغ ملے اور جڑانوالہ جیسے حادثات کا سدِباب ممکن ہو۔