فرمان علی موتیوں کے کام میں مہارت رکھتے ہیں اور انہیں خوبصورتی سے پروکر جاذب نظر کھلونے، ہار اور مختلف چیزیں بناتے ہیں۔ وہ روزانہ ایک بڑے ہال کے کونے میں اپنے کام میں منہمک نظر آتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ساتھ بیٹھے دیگر کاریگروں کو بھی کام سمجھاتے رہتے ہیں لیکن یہ کوئی دکان یا فیکٹری نہیں بلکہ یہ جیل کی ایک بیرک ہے جہاں ایسے فن پارے تخلیق کیے جاتے ہیں۔
بونیر سے تعلق رکھنے والے ادھیڑ عمر کے فرمان علی عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور خیبرپختونخوا کے ضلعے ہری پور میں واقع انگریزوں کے دور کی بنی اس سینٹرل جیل کے سی کلاس میں اپنی زندگی کے 7 برس گزار چکے ہیں۔ وہ جیل میں سزا کے دوران محنت سے حلال روزی کما کر اپنے بیوی بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔
’جیل سے بچوں کو تعلیم کے اخراجات بھجواتا ہوں‘
موتی کے کام سے فرمان علی مناسب رقم کما لیتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے اہلخانہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ اور بچوں کی تربیت بھی اچھی ہوجائے تاکہ وہ معاشرے میں اچھے انسان کے طور پر جانے جائیں۔
فرمان علی نے بتایا کہ وہ اس کام سے ماہانہ 15 ہزار روپے تک کما لیتے ہیں جس کے کچھ حصے سے وہ جیل میں اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور زیادہ حصہ گھر والوں کو بھجوادیتے ہیں جس سے ان کے گھر کا خرچ چلتا ہے اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی پورے ہوجاتے ہیں۔
دوسروں کو کام سکھانے والے فرمان علی نے خود یہ فن کہاں سے سیکھا؟
فرمان علی کا کہنا ہے کہ سزا کے بعد جب وہ جیل ائے تھے تو ان کے پاس کوئی ہنر نہیں تھا اور وہ قید میں بس اداس رہتے اور گھر والوں کے بارے میں سوچا کرتے کہ اب ان کا گزارہ کس طرح ہوگا۔ انہیں یہ غم بھی کھائے جاتا کہ کہیں ان کے بغیر ان کے بچے بھوکے تو نہیں سوتے ہوں گے تاہم جلد ہی ان کی وہ پریشانی ختم ہوگئی جو جیل انتظامیہ کے تعاون اور ایک ساتھی قیدی کے باعث ممکن ہوا۔
ہوا دراصل یوں کہ فرمان علی کی بیرک میں ایک عمر رسیدہ قیدی موتی کے کام کا ماہر تھا اور اچھے خاصے پیسے بھی کمالیتا تھا۔ فرمان علی بھی دیگر قیدیوں کی طرح اس کے شاگرد بن گئے اور کام سیکھ لیا۔
فرمان علی نے کہا کہ ’چونکہ میری مجبوریاں زیادہ تھیں اورمجھے پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو میں نے خوب محنت کی اور دل لگا کر کام سیکھا اور پھر جلد ہی خود کمانے کے قابل ہوگیا‘۔
انہوں نے بتایا کہ جلد ہی انہوں نے پیسے کمانے شروع کردیے اور گھر بھی بھجوانے لگے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جیل انتظامیہ انہیں سامان فراہم کرتی ہے جس سے وہ مختلف چیزیں بنا کر دیتے ہیں جو بعد میں فروخت ہوجاتی ہیں اور انہیں ان کے پیسے مل جاتے ہیں۔
فرمان علی نے کہا کہ ’ سزا پوری ہونے کے بعد میرے استاد رہا ہو گئے اور اب تو ان کی جگہ بیرک میں موتی کے کام کا میں ہی استاد ہوں اور میرے بھی کئی شاگرد ہیں جن میں سے کچھ مجھ سے کام سیکھنے کے بعد خود اپنے طور پر کام کر رہے ہیں جبکہ کچھ میرے ساتھ ہی مل کر کام کرتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ اور 4 بچے ہر ماہ ان سے ملاقات کے لیے جیل آتے ہیں جن سے مل کر انہیں بیحد خوشی محسوس ہوتی ہے اور اہلخانہ بھی ملاقات کرکے خوش دکھائی دیتے ہیں۔
فرمان علی نے کہا کہ ان کی کوشش و خواہش ہے کہ ان کے بچے جرم سے ہمیشہ دور رہیں اور اچھے انسان بنیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جیل سے کما کر بچوں کی تعلیم کے اخراجات اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں بچوں کو الگ سے جیب خرچ بھی دیتا ہوں جس سے وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں اس وقت جو انمول خوشی دکھائی دیتی ہے اس پر میرا دل بہت شاد اور مطمئن ہوجاتا ہے‘۔
’قیدی ہوں لیکن کسی پر بوجھ نہیں‘
فرمان علی نے بتایا کہ انہوں نے جیل میں رہ کر ہنر سیکھا اور قیدی ہونے کے باوجود با عزت روزی کما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’کم از کم میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں بلکہ جیل سے ہی اپنے بچوں کی کفالت بھی کر رہا ہوں‘۔
انہوں نے جیل انتظامیہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے تعاون سے بیرک میں وہ کام کر سکتے ہیں اور سامان کی فراہمی بھی بروقت ہوجاتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر اس حوالے سے حکومت اور نجی اداے مزید اقدامات کریں تو تمام قیدیوں کو اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
فرمان علی اکیلے نہیں بلکہ دیگر قیدی بھی محنت سے حلال روزی کما رہے ہیں۔ ہری پور جیل انتظامیہ نے حال ہی میں 25 سالوں سے بند انگری دور میں قائم مختلف کارخانوں کو دوبارہ فعال کیا ہے جس میں قیدیوں کو نہ صرف ہنر سکھایا جائے گا بلکہ وہ اس سے اچھے خاصے کمانے کے قابل بھی ہوجائیں گے۔
دہشتگردی کی وجہ سے کارخانے بند تھے، جیل سپرنٹینڈینٹ عمیر خان
سپرنٹینڈینٹ ہری پور جیل عمیر خان نے بتایا کہ تقربیا 25 سال بعد جیل کے اندر قائم مختلف کارخانوں کو دوبارہ فعال کیا گیا ہے جہاں قیدی اب باقاعدہ ہنر سیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو قیدی ہنر جانتے ہیں وہ دیگر قیدیوں کو تربیت دیں گے۔
عمیر خان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو ہنر مند بنانے کے پروجیکٹ کے تحت کام شروع ہو گیا ہے اور تمام قیدیوں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہاں لکڑی کا کام کیا جاتا ہے اور فرنیچرز و دیگر اشیا بنائی جاتی ہیں۔
جیل سپرنٹینڈینٹ نے بتایا کہ قیدیوں کو چارسدہ چیل و قالین سازی اور مچھلی کی افزائش کے حوالے سے بھی تربیت دی جا رہی ہے اور انہیں باقاعدہ ڈپلومہ سرٹیفکٹس بھی دیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے نہ صرف قیدیوں کی سزا میں تخفیف ہوگی بلکہ رہائی کے بعد وہ اس ہنر کے ذریعے اپنا کام بھی شروع کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ قیدی جیل سے ہنر مند ہو کر جائے اور جرم کی دنیا سے دور رہے‘۔
عمیر خان نے کہا کہ ہری پور جیل کے ساتھ ہی ایک شو روم تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں قیدیوں کے تیار سامان کو فروخت کیا جائے گا اور ساتھ ہی مختلف محکموں سے آرڈرز بھی لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے حکومت کے ساتھ عوام کو بھی فاہدہ ہو گا کیونکہ جیل میں تیار سامان کی قیمت مارکیٹ کی نسبت کم ہوتی ہے۔
عمیر خان نے بتایا کہ جیل سے بھی قیدی باعزت طور پر کما کر اپنے گھر کے اخراجات پورے کر رہے ہیں اور اسی طریقے سے انہیں مستقبل میں جرم کی دنیا سے دور رکھا جا سکتا ہے۔
جیل سپرنٹینڈینٹ نے کہا کہ ’ہم ہر قیدی کو ہنر مند اور خود کفیل بنا رہے ہیں تاکہ پھر وہ دوبارہ کبھی جیل کا رخ نہ کریں‘۔