25 برس تک صحافت کرنے والا لنڈے کا مال کیوں بیچ رہا ہے؟

منگل 29 اگست 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

رانا شہزاد کو کینسر کی تشخیص کے بعد نجی ٹی وی چینل سے نوکری چھوڑنی پڑی۔ علاج کے لیے انہیں پیسوں کی اشد ضرورت تھی جس کی خاطر انہوں نے اپنے استعمال شدہ کپڑے فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم سے لنڈے کے مزید کپڑے خریدے اور لاہور کی ایک مشہور سٹرک کے کنارے چھوٹا سا اسٹال لگا لیا۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ کپڑے بک جاتے ہیں توبچوں کے لیے کچھ کھانا لے جاتا ہوں اور جب نہیں بکتے تو پھر خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑتا ہے۔

رانا شہزاد نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا کہ اگر ان کا خاندان معاشی طور پر مضبوط ہوتا تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ‘صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کے بارے میں سنتے ہیں کہ فلاں پریس کلب نے یہ کر دیا، فلاں صحافتی تنظیم نے یہ کردیا لیکن مجھے عامل صحافی کے حق میں کہیں پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا‘۔

رانا شہزاد کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ 25 سال سے زائد عرصہ مختلف اخبارات اور نیوز چینلز سے وابسطہ رہے اور اس دوران انہوں نے لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں صحافتی خدمات دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک اسٹوری کی ریکارڈنگ کے دوران قبضہ مافیہ کی جانب سے حملے کا سامنا کرنا پڑا جس میں انہیں 5  گولیاں لگی تھیں اور جن  کے نشان آج بھی ان کے جسم پر موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے والد حیات ہیں اور نہ ہی بھائی بس ایک واحد سہارہ شریک حیات کا تھا جنہیں ایک تیز رفتار گاڑی نے اس وقت روند ڈالا جب وہ میرے لیے کھانا لے کر اسپتال آرہی تھیں‘۔

کینسر کی تشخیص

ان حادثات کے بعد زندگی اپنے ڈگر پر لوٹ ہی رہی تھی کہ رانا شہزاد کو صحت کے دیگر مسائل کا سامنا ہوا۔ جب انہوں نے ڈاکٹر کے کہنے پر ٹیسٹ کرائے تو نتائج دیکھ کر ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔

ان کے نازک اعضا میں بنے ٹیومرز میں کینسر پھیل چکا تھا۔ علاج شروع ہوا تو ان کے  3 آپریشن ہوئے جبکہ ڈاکٹرز نے 2 آپریشن مزید تجویز کیے ہیں۔ جمع پونجی تو تب خرچ ہو گئی تھی جب رپورٹنگ کے دوران مافیا کی گولیوں کا نشانے بنے تھے اور پھر کنسر کے علاج نے ان پر قرض کا بوجھ بھی لاد دیا۔

بچوں کی فکر اپنی تکلیف بھلادیتی ہے

کبھی سینیئر صحافی کہلائے جانے والے رانا شہزاد اب بچوں کی کفالت کی خاطر لنڈے کے کپڑے بیچنے پر مجبور ہیں۔ ٹیومرز کی وجہ سے ان کے زیریں ناف سیال مادہ جمع ہو جا تا ہے اور وہ روزانہ 2 بار پٹی بدلتے ہیں اور شدید گرمی میں بھی سارا دن رستے زخم کے ساتھ استعمال شدہ کپڑے فروخت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ بچوں کی کفالت اور تعلیم کا حرج نہ ہو اس خیال سے وہ خود کو کھڑا رکھتے ہیں اور خرابی صحت کے باوجود بھی روزانہ کام پر جاتے ہیں۔

صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس

ملکی تاریخ میں پہلی بار سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے ہیلتھ انشورنس سکیم کا اجرا کیا جس کے تحت وہ ملک بھرکے 1200 اسپتالوں میں عالمی سطح کی طبی سہولتیں مفت حاصل کرنے کے اہل ہوں گے جس کی سالانہ کارپوریٹ ہیلتھ انشورنس کی مالیت 15 لاکھ روپے ہوگی۔ اگر کوئی صحافی فرض کی ادائیگی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تواس کے لواحقین کو وزیر اعظم فنڈ سے 40لاکھ روپے ادائیگی ہو گی۔

رانا شہزاد جیسے صحافیوں کے لیے یہ خبر واقعی ایک بڑی خوشخبری ہے مگر ڈاکٹرز کے مطابق کینسر جیسے مرض کا  علاج 15 لاکھ روپے مالیتی انشورنس سے ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رانا شہزاد اپنے علاج اور بچوں کی کفالت کے لیے کسی معجزے اور مسیحا کے منتظر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp