قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب ہونے والے اسمبلی کے ممبران

پیر 4 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

1985 کے انتخابات قریب تھے اور یہ صبح کا وقت تھا جب کوہستان کے علاقے سیئو اور کندیا کی مساجد، حجروں اور عوامی مقامات پر اعلانات ہوئے کہ کندیا اور سیئو کا اتحاد ہوا ہے، آنے والے الیکشن میں جس نمائندے کو جرگہ منتخب کرے گا اسے ووٹ دینا ہوگا، عوام کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ضرور تھا مگر جرگے کے اس طرح کے فیصلے نئے نہیں تھے چونکہ اس وقت جرگے کے فیصلے کو اٹل مانا جاتا تھا اور اب بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔

باہمی مشاورت سے مولانا عبدالحنان کو نامزد کیا گیا اور صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے، یہ پہلا اتحاد تھا جو کوہستان میں قرعہ اندازی اور اتحاد کی بنیاد بنا، 1985 سے لے کر آج تک کوہستان اس قرعہ اندازی کی دلدل سے نہیں نکل سکا اور یہی وجہ ہے کہ کوہستان ایک مضبوط سیاسی لیڈر سے محروم رہا اور ساتھ ترقی سے بھی دور محرومیوں میں بندھا ہوا ہے۔

یہ خیبرپختونخوا نہیں بلکہ پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں سے ایک ہے، جونہی وقت گزرتا گیا، کوہستان میں اتحاد کے نام پر قرعہ اندازی کے طریقے بھی سخت ہوتے گئے، گزشتہ 20 سال کے دوران مزید شرائط لاگو کی گئیں جن میں سب سے مضر شرط یہ تھی کہ جو شخص ایک بار قرعہ اندازی کی بنیاد پر الیکشن لڑے گا وہ دوبارہ قرعہ اندازی کے لیے اہل نہیں ہوگا، یعنی قرعہ اندازی پر الیکشن نہیں لڑسکے گا، یعنی جیتنے والا ایم پی اے یا ایم این اے صرف 5 سال یا اس سے بھی کم جب تک حکومت چلے گی نمائندہ ہے اس کے بعد اس کی کوئی سیاسی زندگی نہیں ہوگی۔

قرعہ اندازی کے ذریعے امیدوار نامزد کرنے کا انوکھا طریقہ

اس شرط کا نقصان یہ ہوا کہ جو بھی آیا عوامی حلقوں سے دور رہا اور اپنی ایک سلطنت بنانے کی کوشش اور مال سمیٹنے میں اقتدار ختم ہوا، کوہستان اب 3 اضلاع میں تقسیم ہوچکا ہے، 2013 تک ایک ہی ضلع تھا، یہ ضلع دریائے سندھ کے مشرق اور مغربی کنارے پر واقع ہے، مشرقی اور مغربی کنارے کی زبان اور کلچر میں بھی کچھ حد تک تضاد ہے، یہی وجہ ہے کہ لسانی اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر اتحاد ہوئے اور قرعہ اندازی کے نمائندے منتخب ہوئے، کوہستان میں 8 بڑی آبادی والے علاقے ہیں، جن میں 4 مشرقی اور 4 مغربی کوہستان میں ہیں، ان میں اگر کسی 2 یا ایک بڑی آبادی والے علاقے میں اتحاد کے نام پر قرعہ اندازی ہوئی ہے، نتیجہ یکطرفہ رہا ہے۔

قرعہ اندازی اور اتحاد کے لیے کبھی علما اور کبھی علاقے کے معززین اور کبھی نوجوانوں نے علاقے کے لوگوں کو متفق کیا، عموماً ہوتا ایسا ہے کہ جس تحصیل یا علاقے کا اتحاد ہوتا ہے سب سے پہلے جتنے اقوام ہیں ان کا قرعہ نکالا جاتا ہے جس کا نکل گیا وہ قوم دوسرے مرحلے میں داخل ہوگی، باقی قرعہ اندازی سے نکل جائیں گے، اس کے بعد اس قوم میں دادا یا پردادا کی جتنی نسلیں ہیں ان کا قرعہ ڈالا جائے گا جس کا نکلا دیگر لوگ اس میں بھی الگ ہوں گے۔

اس کے بعد اب بات چچا زاد بھائیوں تک ہہنچ جاتی ہے، ان میں قرعہ نکالا جائے گا جس والد کے نام قرعہ نکلا باقی الیکشن میں نامزدگی کی دوڑ سے باہر ہوں گے، معاملات اس حد تک بھی جاتے ہیں کہ بھائیوں کے درمیان کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں ان کے درمیان قرعہ ہوگا، جس کا نام نکلا وہ مستقبل کا ایم پی اے یا ایم این اے ہوگا، کیونکہ 1885 سے یعنی قرعہ اندازی کی ابتدا سے آج تک صرف ایک قومی اسمبلی کے نمائندے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا باقی سارے کامیاب ہوئے ہیں۔

عموماً ایک دادا کی نسل پر آکر اتفاق ہوجاتا ہے، لیکن بعض اوقات بھائیوں میں بھی قرعہ اندازی ہوئی ہے۔ اب اس میں قابلیت، معیار اور کسی کا سیاسی پس منظر یا شوق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، اس قرعہ اندازی نے کوہستان میں دیہاڑی لگانے والوں کو بھی ایوان میں پہنچایا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو بھی قرعہ اندازی نے چنا ہے۔

قرعہ اندازی کے ذریعے نامزد امیدوار کو ہی ووٹ دینا کیوں ضروری؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرعہ اندازی سے نام نکلنے کے باجود لوگ ایسے نا اہل اور غیر سیاسی لوگوں کے انتخاب سے پیچھے کیوں نہیں ہٹتے کیونکہ ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقے تو پورے ملک کی طرح پوشیدہ ہوتا ہے، دراصل بات یہ ہے کہ ایک تو کوہستان کے لوگ زبان کے پکے ہوتے ہیں دوسری بات تعصب کا عنصر بھی مشرق اور مغرب کی وجہ سے زیادہ ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے گھر گھر حلف اٹھانے کی روایت بھی قائم ہوچکی ہے جس وجہ سے لوگ پابند ہوتے ہیں اور قرعے کے نمائندے کو متخب کرتے ہیں۔

1988 کے انتخابات میں تحصیل سیئو میں قرعہ اندازی ہوئی اور ملک قدم خان نامزد ہوئے۔ انہوں نے میدان مارا، 2 سال بعد یعنی 1990 کے انتخابات میں جالکوٹ اور ہربن بھاشہ کا اتحاد ہوا، قرعہ اندازی میں فرمس خان کا نام آیا اور جیت گئے، اور پٹن کیال اتحاد سے ملک امون صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے، پھر اگلے الیکشن میں ایک بار پھر پٹن کیال اتحاد ہوا اور قرعہ اندازی کے ذریعے ملک میاں نور کو ایوان میں پہنچایا گیا۔

2002 کے انتخابات میں تیسری بار پٹن کیال اتحاد ہوا مگر اس بار قرعہ اندازی کے بغیر متفقہ طور پر مولانا عبدالحلیم کو نامزد کیا گیا جو قومی اسمبلی کے ممبر بنے، 2013 کے انتخابات میں چوتھی بار پٹن کا اتحاد ہوا قرعہ اندازی میں سرزمین اور عبدالحق کا نام نکلا جو دونوں صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائندے منتخب ہوئے۔

2018 کے انتخابات میں تینوں کوہستان کے مختلف مقامات پر اتحاد ہوئے اور قرعہ اندازی کے نمائندے دیگر نمائندوں کے مقابلے میں الیکشن لڑے، ایسا پہلی بار ہوا کہ تینوں صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے حلقے سے قرعہ اندازی کے نمائندوں کو الیکشن لڑایا گیا، جس میں تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر قرعہ اندازی کے امیدواروں کو جتوایا گیا، جس میں قومی اسمبلی کے ملک آفرین، اپرکوہستان سے دیدار خان، لوئر کوہستان سے مفتی غفار شاہ اور کولئی پالس کوہستان سے مفتی عبید الرحمان ایم پی اے منتخب ہوئے۔

آئندہ قرعہ اندازی کے ذریعے امیدواروں کو سامنے نہ لانے کا امکان

اب چونکہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے جہاں پہلے قرعہ اندازی کے نمائندوں کو ایوان پہنچانا سب سے بڑی جیت تصور کی جاتی تھی اس بار ایسا نہیں ہوا، اس دور حکومت میں سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں تمام نمائندوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، آئندہ انتخابات میں کوہستان کے تینوں اضلاع میں شاید قرعہ اندازی کے ذریعے امیدواروں کو سامنے نہ لایا جائے اس کی سب سے بڑی وجہ ایک تو علاقے کے ملک وڈیروں سے اقتدار چھن گیا۔

دوسری بات کہیں ان ملک وڈیروں کے پریشر میں آکر قرعہ اندازی کا ممبر علاقے میں کام نہ کرسکا جس کا فائدہ ملک وڈیروں کو ملا، اس کے علاوہ عوام میں تھوڑا شعور پیدا ہوچکا ہے کہ قرعہ اندازی یا جرگہ کوہستان کی پسماندگی کا حل نہیں ہے۔ لیکن لوئر کوہستان میں اب اس بار بھی کہیں کہیں حجروں اور محفلوں میں اتحاد اور قرعہ اندازی کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ایک بڑی تعداد لوگوں کی اس روایت سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ قرعہ اندازی میں نام آنے والے کو پورا حلقہ نمائندہ مقرر کرتا ہے بلکہ کوہستان میں ایک محدود آبادی ہے جہاں دوسرے مقامات سے آبادی کا تناسب زیادہ ہے وہاں اتحاد اور قرعہ اندازی ہوتی ہے، وہ ووٹر تمام قرعہ اندازی کے نمائندے کو ووٹ کاسٹ کرتے ہیں جن کا پیک ووٹ ہوتا ہے، کوہستان میں صوبائی اسمبلی کے نمائندے کو زیادہ سے زیادہ 8 ہزار ووٹ سے کامیابی ملی ہے اور اگر امیدوار زیادہ ہوں تو یہ تعداد کم بھی ہوسکتی ہے۔

1800 سے 2200 تک ووٹ لینے والا کامیاب ہو جاتا ہے

2018 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے امیدواروں نے 1800 اور 2200 سے میدان مارا تھاو یہی وجہ ہے کہ آبادی کم ہے جہاں جمہوری طرز کے الیکشن میں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ بھی ہوا ہے تو وہیں امیدواروں کا تناسب نکال کر مخصوص علاقے نے اتحاد کیا اور قرعہ اندازی کے ذریعے اپنا نمائندہ ایوان میں بھیج دیا۔

قرعہ اندازی کے نمائندوں اور غیر مستحکم لیڈر شپ کے باعث آج کوہستان میں شرح خواندگی پورے پاکستان سے کم ہے، مردوں کی شرع خواندگی 4 فیصد جبکہ خواتین کی 2 فیصد سے بھی کم ہے، اسکولوں کو حجروں میں تبدیل کیا گیا ہے، جس کی زمین پر عمارت تعمیر ہوتی ہے اسے چوکیداری کی ملازمت دی جاتی ہے جو عمارت کو ذاتی ملکیت سمجھتا ہے اور مال مویشی یا پھر اپنی رہائش کے لیے استعمال کرتا ہے۔

کوہستان کے تینوں اضلاع میں 2 سال پہلے تک ڈی ایچ کیو اسپتال نہیں تھا، 1985 میں سنگ بنیاد رکھا جانے والا اپر کوہستان کا ڈی ایچ کیو ابھی بھی مکمل طور ہر فعال نہیں ہوسکا ہے، کولئی پالس کوہستان کے پورے ضلع میں بی ایچ یو سے بڑا صحت کا ادارہ نہیں ہے اور لوئر کوہستان کا ضلع بھی ایک ٹی ایچ کیو پر ہی خوش ہے۔

کوہستان کی 8 بڑی وادیوں میں بڑی ندیاں بہتی ہیں، ہر گاؤں میں بڑے بڑے چشمے بہتے ہیں، کوہستان کے وسط میں پاکستان کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ بہتا ہے لیکن کوہستان کی 90 فیصد آبادی بجلی سے محروم ہے، کوہستان میں شاہراقراقرم کے علاوہ کہیں دوسری اچھی اور پختہ سڑک تینوں اضلاع میں نہیں ملیں گی۔

کوہستان کی سڑکیں تباہ حال، آئے روز حادثات رونما ہوتے ہیں

وادی سوپٹ، وادی کندیا، وادی رازیکہ، دوبیر رونولیا وادی، چھوا درہ، کیال وادی اور پالس کا درہ، ان علاقوں میں سڑک نہیں ہے، پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

رواں ماہ کوہستان میں 3 بڑے حادثات رونما ہوئے، پالس میں جیپ کھائی میں جاگری جس میں 5 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوگئے، کولئی میں ڈاٹسن کھائی میں جاگری جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوئے اور پھر جیجال میں موٹر کار کھائی کی نذر ہوئی جس میں 3 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے، یعنی ایک ماہ میں 12 افراد جاں بحق جبکہ 8 زخمی ہوئے جس کہ وجہ کچی اور خراب سڑکیں بنیں۔

یہ اموات اور حادثات ہر ماہ رونما ہوتے ہیں اور درجنوں افراد بھی ایک ساتھ لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن اہل کوہستان الیکشن قریب آتے ہی تمام غم، محرومیاں بھلا کر قرعہ اندازی کے ذریعے ایسے لوگوں کو نمائندے منتخب کرتے ہیں جو سیاست کی ’س‘ سے بھی واقف نہیں ہوتے۔

کوہستان اکیسویں صدی میں بھی پتھر کے دور میں جی رہا ہے جہاں آج بھی مریض کو لکڑی سے باندھ کر قراقرم لایا جاتا ہے اور 3 اضلاع دور ایبٹ آباد منتقل کیا جاتا ہے کیونکہ اسپتال کوہستان میں نہیں ہے، کوہستان میں اب بھی اشیائے خورو نوش کمر پر رکھ کر لانی پڑتی ہیں۔ کیونکہ سڑکیں نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ اب بھی لوگ لکڑی چیر کر بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں اور روشنی کے لیے لالٹین جلائی جاتی ہے۔

اہل کوہستان کا المیہ ہے کہ لسانی اور علاقائی تعصب کی بنیاد پر قرعہ اندازی کے ذریعے اپنے گاؤں کے شخص یا رشتہ دار کو نمائندہ منتخب کرنا ہے اور پھر اگلے 5 سال اسے پشاور اور اسلام آباد کے ایوانوں میں ڈھونڈنا ہے، پھر بھی انہیں ملنا نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp