بنام مشتاق احمد یوسفی

پیر 4 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب بر بنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول اور منطقی وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں۔‘

’مرزا خدا کے ان حاضر و ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلے کی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں، شادی ہو یا غمی، موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور سب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اس نشست و برخاست نے ایک کھلا فائدہ یہ دیا ہے کہ وہ باری باری سب کی غیبت کر ڈالتے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں کر پاتا۔‘

’ہوش خلیج آبادی، اس ظالم کے تقاضائے وصل کے یہ تیور ہیں گویا کوئی کابلی پٹھان ڈانٹ ڈپٹ کر ڈوبی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے۔ مگر وہ زبان کے بادشاہ ہیں، زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔‘

’ہم تو اسپتال میں مرنے کے خلاف نہیں۔ ویسے تو مرنے کے لیے کوئی جگہ ناموزوں نہیں، لیکن پرائیویٹ اسپتال اور کلینک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مرحوم کی جائیداد، جمع جتھا اور بینک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان کے درمیان خون خرابہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آتا ہے۔‘

مذکورہ بالا چاروں اقتباسات مشتاق احمد یوسفی کے قلم پارے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی اپنے منفرد اور اچھوتے انداز کی بدولت اردو میں شگفتہ نگاری کے سرخیل ہیں۔ ان کا اختصاص یہ ہے کہ وہ پھکڑ پن، فقرے اور جگت بازی کے برعکس شائستگی، شگفتگی اور شوخی کی بدولت قاری کی توجہ کھینچتے ہیں۔

وہ اپنے کرداروں اور منظر نگاری سے مزاح کے کینوس پر ایسی ایسی تصاویر بناتے ہیں جو ان کے پرستاروں نے آج بھی اپنے قلوب و اذہان میں آویزاں کر رکھی ہیں۔ انہوں نے چست جملوں، اشعار، مصرعوں، محاوروں، ضرب الامثال اور کہاوتوں کے بر محل استعمال سے اپنی شگفتہ نگاری کا وہ معیار قائم کیا ہے، جسے چھونا ہر قلم کار کا خواب ہے۔ زیر نظر تحریر ان کے صد سالہ یوم پیدائش (2023۔1923) پر نذرانہ عقیدت ہے۔

’کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے‘

مشتاق احمد یوسفی یکم محرم 1342 ہجری بمطابق 4 ستمبر 1923 کو راجستھان کے ضلع ٹونک کے نواحی علاقے ’ستوانسا‘ میں پیدا ہوئے (بقول یوسفی جہاں کے خربوزے اور ’چکو باز‘ مشہور ہیں)۔ ان کے والد عبدالکریم خان یوسفی وہاں کے پہلے گریجویٹ مسلمان تھے۔ مشتاق احمد یوسفی نے ابتدائی تعلیم جے پور سے حاصل کی۔ آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔اے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور ایم اے فلسفہ کی ڈگری حاصل کی۔ 1946ء میں پرونشل سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوکر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد مشتاق احمد یوسفی کا خاندان کراچی آ بسا۔

1950 میں انہوں نے کراچی میں بینک کاری میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا ، مسلم کمرشل بینک میں بحیثیت ڈپٹی جنرل مینیجر تعینات ہوئے۔ 1965 میں الائیڈ بینک کے مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ 1974 میں یونائٹڈ بینک کے صدر بنے۔ 1977 میں انہیں پاکستان بینکنگ کونسل کا چیئرمین بنایا گیا۔ انہوں نے 11 برس تک لندن میں بی سی سی آئی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 1990 میں کراچی واپس لوٹ آئے۔ مشتاق احمد یوسفی 20 جون 2018 کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وہیں آسودہ خاک ہیں۔

’دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں‘

مشتاق احمد یوسفی نے 1955 میں ’صنفِ لاغر‘ کے عنوان سے تحریر لکھ کر شگفتہ نگاری کا آغاز کیا، ان کی پہلی تحریر معروف ادبی جریدے ’سویرا‘ میں شائع ہوئی۔ 1961 میں پہلی کتاب ’چراغ تلے‘ شائع ہوئی۔ دوسری کتاب ’خاکم بدہن‘ 1969 میں، تیسری کتاب ’زرگزشت‘ 1976 میں، چوتھی کتاب ’آبِ گم‘ 1989 میں اور پانچویں کتاب ’شامِ شعر یاراں‘ کے نام سے 2014 میں شائع ہوئی تھی۔

خاکم بدہن اور زرگزشت پر مشتاق احمد یوسفی کو بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ اور آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں 1999 میں ہلالِ امتیاز، 2002 میں ستارہ امتیاز جبکہ اکادمی ادبیات پاکستان نے 1999 میں کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

چراغ تلے میں خود پیش لفظ لکھا اور اپنے حلیے کی طرف کچھ اس طرح سے اشارہ کرتے ہیں۔’ اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں۔ عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔‘

’پڑئیے گر بے مار‘ میں لکھتے ہیں ’سنا ہے کہ شائستہ آدمی کی پہچان یہ ہے کہ اگر آپ اُس سے کہیں کہ مجھے فلاں بیماری ہے تو وہ کوئی آزمودہ دوا نہ بتائے۔ شائستگی کا یہ سخت معیار صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ملک میں سوائے ڈاکٹروں کے کوئی اللہ کا بندہ شائستہ کہلانے کا مستحق نہ نکلے۔‘

مشتاق احمد یوسفی نے زرگزشت کو اپنی سوانح نو عمری قرار دیا ہے۔ اس سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔ ’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کررہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابا جان پر دل کا دورہ پڑا، اور زمین نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدر آباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈریسن نے اس وارننگ پر واپس دلوا دی کہ ’آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘

’شامِ شعر یاراں‘ یوسفی صاحب کے تبرک کے طور پر ہی پڑھی جا سکتی ہے۔

سینئر صحافی ظفر سید نے24 اکتوبر 2014 کو شائع ہوئے اپنے مضمون میں ’شامِ شعریاراں‘ کے بارے میں لکھا تھا کہ ’ مشتاق احمد یوسفی کی ربع صدی کے بعد آنے والی کتاب ’شامِ شعریاراں‘ کا اردو حلقوں میں بڑی شدت سے انتظار کیا گیا لیکن کتاب پڑھ کر امیدوں کے محل زمین پر آ رہے۔ کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کرکے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ وہ انداز جس نے گذشتہ نصف صدی سے یوسفی کو یوسفی بنایا ہوا ہے، اس کتاب میں ماند نظر آتا ہے۔ اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، مجلسی گفتگو، تہنیتی اجلاسوں اور تعزیتی محافل میں وہ بات کہاں آ سکتی ہے جو جم کر کسی ایک موضوع پر پوری توجہ مرکوز کرکے لکھی جانے والی کتاب میں ہو سکتی ہے۔ فی الحال تو یہ کتاب یوسفی صاحب کے تبرک کے طور پر ہی پڑھی جا سکتی ہے۔‘

’ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘ یوسفی مشاہیر کی نظر میں

مشتاق احمد یوسفی وہ شفگتہ نگار ہیں جن کی ایک ایک سطر قاری سے توجہ کا خراج طلب کرتی ہے، ان کی تحریر سے حظ اٹھانے کے لیےکئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ لفظوں کے الٹ پھیر سے ایسا جملہ بُنتے ہیں کہ اسے گرفت میں لینے کے لیے قاری کو ’الرٹ‘ رہنا پڑتا ہے۔ ان کی شگفتہ نگاری سے وہی مستفید ہو سکتا ہے جس کی ادب پر گہری نظر ہو۔ مشتاق احمد یوسفی کو ہم عصروں نے عہد موجود کا سب سے بڑا شگفتہ نگار تسلیم کیا تھا، یہاں تک کہ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے کہا تھا ’ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘ چند معروف شخصیات کی آرا:

یوسفی فنِ تحریف کے بادشاہ تھے، ابنِ انشا

ابنِ انشاء نے کہا تھا کہ ’ کرداروں کی اچھل کود یا الفاظ کا غیر ضروری بگاڑنا مزاح کو مسخرہ پن میں تبدیل کر سکتا ہے اور کئی نامور لکھاریوں کا دامن ان کانٹوں میں الجھ الجھ گیا جبکہ یوسفی اس خار زارِ سے بے خطر نکل گئے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب لکھنے والے کے ترکش میں بذلہ سنجی، حاضر جوابی، ضلع جگت، پھبتیوں اور چست فقروں کے تیر بھی ہوں، وسعتِ مطالعہ بھی اور زبان و بیان پر دسترس بھی۔ یوسفی فنِ تحریف کے بادشاہ تھے۔ ان کے ہاں اشعار اور مصرعوں میں تصرف و تحریف پھلجڑیوں کی طرح ورق در ورق پھوٹتے چلے جاتے ہیں۔ غالب نے لکھا تھا کہ ’میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا۔‘ یوسفی نے مرزا کی مدد سے انشائیہ کو مکالمہ بنا دیا ہے جو صرف ان کے اور ہمزاد کے مابین نہیں ہے بلکہ سہ فریقی ہے کہ قاری بھی اس میں شانہ بہ شانہ شامل رہتا ہے۔

’یوسفی کی طنازی اور دلفریبی دونوں قابل ذکر ہیں‘ ڈاکٹر اسلم فرخی

’اردو طنز و مزاح میں ایک ایسی نئی اور بھرپور آواز کا اضافہ ہوا ہے جو الگ سے پہچانی جا سکتی ہے۔ جس کی طنازی اور دلفریبی دونوں قابل ذکر ہیں۔ یوسفی طرز بیان، ادبیت، ذہانت اور برجستگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ بات میں سے بات پیدا نہیں کرتے، بلکہ بات خود کو ان سے کہلوا کرایک طرح کی طمانیت اور افتخار محسوس کرتی ہے۔‘

مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں، شمس الرحمٰن فاروقی

’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح میں شعر وادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے، اردو زبان کی وسعتوں پر انہیں اس قدر قابو ہے کہ انہیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ پرانی باتوں، خاص کر زمانہ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے۔ قاری کی نظر اگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرت خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘

مشتاق احمد یوسفی کے 35 نشتر

جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔

غالب دنیا میں واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔

فرضی بیماریوں کے لیے یونائی دوائیں تیر بہدف ہوتی ہیں۔

بعض مردوں کو عشق ميں محض اس لیے صدمے اور ذلتيں اُٹھانی پڑتی ہيں کہ ’محبت اندھی ہوتی ہے‘ کا مطلب وہ يہ سمجھ بيٹھتے ہيں کہ شايد عورت بھی اندھی ہوتی ہے۔

مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔

آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔

سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹو کے افسانے پڑھ کر سو جاتے ہیں۔

گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔

جب نورجہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گیا تو جہانگیر نے اسے پہلی بار خصم گیں نگاہوں سے دیکھا۔

میرا تعلق تو اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے جو خلوصِ دل سےسمجھتی ہے کہ بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں۔

الحمد للہ بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو۔

صرف ننانوے فیصد پولیس والوں کی وجہ سے باقی بھی بدنام ہیں۔

طوطے سے مستقبل کا حال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایک اور نیک فال نکالتا ہے، جس کا سبب یہ کہ دماغ کے بجائے چونچ سے کام لیتا ہے۔

اندرون لاہور کی بعض گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد، تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔

ذکر گناہ عمل گناہ سے کہیں زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔

سمجھ دار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔

بے شک دکھ، حالات اور بیوٹی پارلر انسان کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

بیسویں صدی میں جیت انہی کی ہے جن کے ایک ہاتھ میں دین ہے اور دوسرے میں دنیا، اور دائیں ہاتھ کو خبر نہیں کہ بائیں میں کیا ہے۔

ہم پاکستانی واحد قوم ہیں جو کہتے ہیں بھائی ایک ’ٹھنڈی کولڈ ڈرنک‘ دینا۔

حس مزاح ہی در اصل انسان کی چھٹی حس ہے، یہ ہو تو انسان ہر مقام سے بہ آسانی گزر جاتا ہے۔

کتے کی اردو میں لے دے کے دو قسمیں ہیں۔ دوسری کو برادرِ خورد کہتے ہیں۔

بیوی سے عشقیہ گفتگو کرنا ایسے ہی ہے جیسے انسان خارش وہاں کرے جہاں نہ ہو رہی ہو۔

یوں میرا دادا بڑا جلالی تھا۔ اس نے چھ خون کیے اور چھ ہی حج کیے۔ پھر قتل سے توبہ کرلی۔ کہتا تھا اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں، اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا۔

علم حساب درحقیقت کسی معتصب کافر نے مسلمانوں کو آزار پہچانے کے لیے ایجاد کیا تھا۔

اگر ایک پوری کی پوری نسل کو ہمیشہ کے لیے کسی اچھی کتاب سے بیزار کرنا ہے تو سیدھی ترکیب یہ ہے کہ اسے نصاب میں داخل کر دیجیے۔

اگر سبزیاں کھانے سے وزن کم ہوتا تو ایک بھی بھینس موٹی نہ ہوتی۔

ایمبولینس ہو یا بارات دونوں کو جلدی راستہ دے دینا چاہیئے کیوں کہ دونوں ہی زندگی کی جنگ لڑنے جا رہے ہوتے ہیں۔

جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو ’مسلمانوں کے سائنس پر احسانات‘ رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا۔

طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہو جاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

گانے والی صورت اچھی ہو تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔

محاورے زبان کے بڑھے ہوئے ناخن ہوتے ہیں۔

میٹھا پان، ٹھمری اور ناول، یہ سب نابالغوں کے شغل ہیں۔

آزاد شاعری کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر نیٹ کے ٹینس کھیلنا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp