عدالتی حکم کے باوجود سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کی گرفتاری پر لاہور ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور پولیس علی ناصر رضوی اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سمیت دیگر افسروں کو عدالت طلب کیا تھا۔
پرویز الٰہی کو رہائی کے بعد بحفاظت گھر نہ پہچانے پر قیصرٰی الہی کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے کی۔
تاہم مقررہ وقت پر ڈی آئی جی سیکیورٹی لاہور پولیس کامران عادل عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس امجد رفیق نے دریافت کیا کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں، جس پر کامران عادل بولے؛ طلب کس کو کیا گیا تھا اس بارے میں ابہام تھا لہذا وہ حاضر ہوئے ہیں۔
جسٹس امجد رفیق نے دو بجے تک تمام پولیس افسروں سے جواب طلب کرتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس عثمان انور کو آج ہی پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ سرکاری وکیل کی جانب سے آئی جی پنجاب کو پیش ہونے کے لیے مہلت طلب کرنے پر جسٹس امجد رفیق بولے؛ اگرآئی جی پنجاب پولیس پیش نہ ہوئے تو عدالت حکم جاری کرے گی۔
اس سے قبل آج صبح سماعت کے دوران قیصرٰی الہی کے وکیل طاہر نصر اللہ وڑائچ نے عدالت کو بتایا کہ وہ پرویز الٰہی کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھے تھے ۔ مال روڈ پر پولیس نے ایک بار گرفتاری کوشش کی۔ کینال روڈ پر تین سو نقاب پوش بندوں نے ہمیں روکا۔
مزید پڑھیں
اس موقع پر جسٹس امجد رفیق نے دریافت کیا کہ کیا روٹ کو زیرو نہیں کرایا گیا تھا، جس پر طاہر نصراللہ وڑائچ بولے؛ چالیس سے پچاس گاڑیاں ہمارے آگے اور پیچھے تھیں۔ تین گاڑیوں نے ہمیں روکا ہمارے گاڑی کے آگے بریک لگا دی گئی، جیسے ہی گاڑی رکی ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور پولیس عمران کشور نے خود دروازہ کھولا اور لوگوں کو اشارہ کیا۔
عدالتی استفسار پر وکیل نے بتایا کہ میں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ جس پر جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ ان لوگوں کے پاس کوئی آرڈر تھا؟ کیا وہ لوگ پولیس وردی میں تھے؟ طاہر نصراللہ نے بتایا کہ یہ سارا کام ایک منٹ میں ہوا اور سارے لوگ سول کپڑوں میں تھے۔
جسٹس امجد رفیق بولے؛ انہوں نے کوئی اسلحہ استعمال نہیں کیا ان سے پوچھا نہیں کی تمھاری جرات کیسے ہوئی کورٹ کا آرڈر موجود ہے؟ طاہر نصراللہ وڑائچ کا کہنا تھا کہ لطیف کھوسہ بوڑھے آدمی ہیں وہ کیا مزاحمت کرتے، جس پر جسٹس امجد رفیق نے ازراہ تفنن کہا کہ آپ اپنے اپکو جوان سمجھ رہے ہیں۔ ان کے ریمارکس پر کمرہ عدالت کا ماحول خوشگوار ہوگیا تھا۔