یہ غالبا 1994 یا 95 کی بات ہے، میں اس وقت پاکستان اسٹیل کیڈٹ کالج میں پڑھتا تھا، جب میں نے نئی نئی سگریٹ پینا شروع کی تھی- ابتدا گولڈ لیف برانڈ سے کی تھی جس کا پیکٹ اس وقت شاید 18 یا 21 روپے کا ملا کرتا تھا۔
اس زمانے میں کالج سے ساٹھ روپے ہفتہ وار جیب خرچ یعنی Pocket Money ملا کرتی تھی، جب کہ گھر والے بھی مہینے میں سو دو سو روپے دے ہی دیا کرتے تھے۔
اس زمانے میں 18 یا 21 روپے کا گولڈ لیف کا پیکٹ خریدنا بھی ایک دشوار امر تھا لیکن کیڈٹ کالج کی ذہنی اور جسمانی سختیوں سے بھر پور زندگی میں سگریٹ کے چند کش ہی کچھ لطف اور ذہنی عیاشی فراہم کیا کرتے تھے، اس لئے ہماری پاکٹ منی کا بیشتر حصہ گولڈ لیف کے پیکٹ خریدنے میں صرف ہوتا تھا۔
ہمارا سگریٹ نوشوں کا گروپ 8 افراد پر مشتمل تھا، جن میں ہم چار روم میٹس شہزاد انور، نورالحسن، معمور عمیمی، عمران، محمد علی اور دیگر دوست شامل تھے اور ہم روزانہ ایک پیکٹ گولڈ لیف منگوایا کرتے تھے۔
ترتیب کچھ یوں تھی کہ روزانہ کلاسز میں بریک کے دوران ہم لوگ چار سگریٹس آٹھ افراد آدھی آدھی شئیر کیا کرتے تھے جبکہ لنچ کے بعد ہر شخص کو الگ سگریٹ ملتی تھی اور اسی طرح ڈنر کے بعد بھی ہر بندے کو اس کی اپنی مکمل سگریٹ ملا کرتی تھی۔
اس طریقے سے ایک دن میں ہمارا کوٹا ڈھائی سگریٹس کا تھا اور یہ معمول دو تین سال تک جاری رہا سوائے ویک اینڈز کے جب ہم گھر جاتے تھے اور اپنی مرضی سے سگریٹ خرید کر خود، کش پر کش لگاتے تھے۔
جب میں برسر روزگار ہوا تو ایک دن میں تیس سے چالیس سگریٹس بھی پیئے لیکن جو لطف و سرور ایک دن کے ڈھائی سگریٹس سے ملا کرتا تھا وہ کبھی حاصل نہ ہوا۔
17 جنوری 2016 الحمدللہ وہ دن تھا جب میں نے سگریٹ نوشی ترک کردی اور اس کے بعد اپنے کئی جاننے والوں کو اس کی ترغیب دے کر سگریٹ نوشی سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔
کل میں نے جب سنا کہ گولڈ لیف کا پیکٹ ساڑھے چار سو روپے میں بک رہا ہے تو خیال آیا کہ اپنی یہ روداد سگریٹ نوش دوستوں سے شیئر کروں اور انہیں مشورہ دوں کہ بہتر تو یہی ہے کہ اس مہلک عادت سے جان چھڑا لیں اور اگر انہیں یہ مشکل لگتا ہے تو پھر ڈھائی سگریٹس والا فارمولا اپنانے سے نہ صرف ان کی ٹھرک پوری ہوجائے گی بلکہ جیب اور پھیپھڑوں پر بھی زیادہ دباؤ نہیں پڑے گا۔