شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کا دورہ روس کے دوران صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقاتوں کا سلسلہ ایک دوسرے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے دشمن مشترک ہیں، اس کے علاوہ چین کے ساتھ دوستی اور مختلف معاملات میں چین پر دونوں کا انحصار بھی قدر مشترک ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے دورہ روس کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے اسلحے کے معاہدے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس دورے کی سب سے اہم وجہ یہ سامنے آرہی ہے کہ نارتھ کوریا روس کو ہتھیار دینا چاہتا ہے، تاکہ یوکرین جنگ میں روس کا ساتھ دے سکے اور بدلے میں روس نارتھ کوریا کو خوراک اور ٹیکنالوجی فراہم کرے جس سے وہ مزید ایٹمی ہتھیاربنا سکے۔
عرصے دراز سے پابندیوں کا شکار رہنے، بارڈر بند ہونے کے باعث نارتھ کوریا، خوراک، تیل اور ٹیکنالوجی سے محروم ہے، روس سے ایسی ٹیکنالوجی کی منتقلی چاہتا ہے جو اسے نیوکلیئر ہتھار بنانے میں مدد دے سکے۔
ویسے تو دونوں ممالک ہی عرصہ دراز سے پابندیوں کا شکار ہیں اور دوںوں کو ہی عالمی پابندیوں کا سامنا ہے، لیکن یہاں روس کا معاملہ تھوڑا الگ ہے، وہ اس وقت یوکرین جنگ میں پھنسا ہوا ہے، ساتھ ہی مغربی دنیا کے سخت رویے کا بھی سامنا کررہا ہے۔
مزید پڑھیں
اس دورے کی دوسری سب سے بڑی وجہ نارتھ کوریا اور امریکا کے تعلقات ہیں جو 2019 میں کم جونگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد خراب ہونا شروع ہوگئے، کیونکہ امریکا کا جھکاؤ ساؤتھ کوریا کی طرف بڑھ گیا، امریکا کی جانب سے ساؤتھ کوریا میں فوجی مشقیں کرنا، ہتھیار فراہم کرنا اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرنا نارتھ کوریا کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔
اس دورے کی سب سے بڑی اور تیسری وجہ دنیا بھرمیں پابندیوں کے باوجود روس اور نارتھ کوریا کے چین کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، نارتھ کوریا کا تو زیادہ انحصار چین پر ہی ہے لیکن روس بھی اپنی تجارتی سرگرمیوں کو زیادہ تر چین کے ذریعے ہی انجام دیتا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق نارتھ کوریا یا روس کے درمیان ہتھیاروں کا معاہدہ طے ہوتا ہے یا نہیں لیکن روس نے امریکا کو جو پیغام پہنچانا تھا پہنچا دیا ہے کہ روس اپنی مرضی سے دوستی کا تعین کرسکتا ہے اور کوئی اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب نارتھ کوریا نے بھی روس کا دورہ کرنے سے ساؤتھ کوریا کو وارننگ کے طور پر ایک پیغام دیا ہے کہ امریکا کے قریب جانے سے مسائل مزید بڑھیں گے۔
روسی میڈیا کے مطابق ملاقات میں شمالی کوریا نے روس کو ہتھیاروں کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن بدلے میں جدید خلائی ٹیکنالوجی کے علاوہ خوراک کی مد میں امداد کی بھی خواہش ظاہر کی ہے۔
جس پر روس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بدلے میں شمالی کوریا کو سیٹلائٹ تیار کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مغرب کے ساتھ دونوں ممالک کے تعلقات اب تک کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔