نیب قانون میں ترامیم ختم ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

جمعہ 15 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سنہ2008  میں جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل مشرف کا این آر او ختم کیا تو اس کے بعد 8000 کرپشن کیس کھولے گئے تھے۔ اسی طرح پی ڈی ایم دورحکومت میں نیب قانون میں ترامیم کے بعد بہت سے مقدمات یا تو ختم ہو گئے یا پھر نیب کے دائرہ کار سے باہر چلے گئے۔ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواستوں کے سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ جن لوگوں نے پلی بارگین کی تھیں انہوں نے بھی رقومات کی ادائیگی بند کر دی ہے۔

نیب ترامیم کے کالعدم ہونے کے اثرات

نیب ترامیم کے فیصلے کے بعد  450 ‏سےزائد سابق ارکان پارلیمنٹ،حاضرسروس اورریٹائرافسران اورکچھ پرائیویٹ کاروباری حضرات نیب کے ریڈار پر آ گئے ہیں۔ تقریباً 1809ریفرنسز، تفتیش،انکوائریاں اور شکایات دوبارہ کھل گئی اور 700 ارب روپے کے مبینہ کرپشن کیس کھل گئے ہیں۔

7 سابق وزراءاعظم، 14وزراءاعلی، 78وزراء 176ایم پی اور114افسران کے کیس کھل گئے۔ سپریم کورٹ نے تمام 700 ارب روپے کے ہزاروں کرپشن کیسز، انویسٹگیشن اور انکوائریاں دوبارہ کھولنے کا حکم دے دیا. نیب ترامیم کے ختم ہونے سے موجودہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے خلاف مقدمہ بھی کھل گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ نواز شریف، شہباز، شریف، شاھد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر بھی اس کی زد میں آئیں گے۔

کون سے اہم مقدمات دوبارہ کھل جائیں گے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب کی عدالت سے منتقل ہوئے یا ختم ہوئے متعدد مقدمات دوبارہ بحال ہوگئے ہیں جس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا مقدمہ بھی دوبارہ بحال ہوچکا ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس اور اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کیس بھی دوبارہ کھل جائے گا۔

اس کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس بھی دوبارہ بحال ہوگیا ہے جکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف این سی اے اسکینڈل بھی دوبارہ بحال ہوگیا ہے۔

آصف علی زرداری کا جعلی اکاؤنٹس کیس، پنک ریزیڈینسی، سابق وزیرخزانہ شوکت ترین کے خلاف بھی ریفرنس دوبارہ بحال ہوجائے گا۔

نیب قانون میں کون سی ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا؟

سپریم کورٹ نے آج کے فیصلے میں جس ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دیا وہ ان ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے بارے میں ہے لیکن جب ترامیم ہی ختم ہو گئیں تو یہ شق بھی غیر مؤثر ہو گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب قانون میں سنہ 2022 میں ہونے والی ترامیم کو کالعدم کیا ہے

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سپریم کورٹ نے صرف سال 2022 میں نیب قانون میں ہونے والی ترامیم کو کالعدم قرار دیا ہے جبکہ سنہ 2023 میں ہونے والی ترامیم کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ گزشتہ سماعتوں پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان اور عمران خان کے وکیل خواجہ حارث احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم صرف سنہ 2022 کی ترامیم پر فیصلہ دیں گے۔

نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق

نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر وفاقی حکومت اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر نہیں کرتی اور سپریم کورٹ اس پر حکم امتناع جاری نہیں کرتی تو سپریم کورٹ احکامات کے مطابق 7 روز میں وہ تمام مقدمات کھل جائیں گے جو یا تو ختم کر دیے گئے تھے یا دوسری عدالتوں میں منتقل کر دئیے گئے جن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک توشہ خانہ کرپشن کیس بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز اور شہباز شریف اور کئی دیگر سیاست کے مقدمات بھی شامل ہیں۔

ایک سوال کے جواب کہ آیا ان ترامیم سے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف احتساب عدالت میں زیرِ سماعت القادر ٹرسٹ کیس پر کوئی فرق پڑے گا۔

عمران شفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ضمانت اور ریمانڈ کے قانون کو تو چھیڑا ہی نہیں اس لیے ان کے مقدمے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سپریم کورٹ نے انہی ترامیم کو ختم کیا ہے جن سے فرق پڑتا ہے، جی ایم چوہدری

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جی ایم چوہدری نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں ریمانڈ ضمانت وغیرہ جیسی پروسیجرل ترامیم کو نہیں چھیڑا۔ جیسا کہ 90 روز کے ریمانڈ کو 15 روز کے ریمانڈ میں بدلا گیا تھا اور نیب مقدمات میں ضمانت کا اختیار ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ کی بجائے احتساب عدالت کے جج کو دیا گیا تھا۔

جی ایم چوہدری نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے صرف انہی ترامیم کو ختم کیا ہے جن سے فرق پڑے گا جیسا کہ 50 کروڑ سے زائد کے مقدمات کا احتساب عدالتوں میں جانا، اب اس ترمیم کے خاتمے سے نیب کا اصل دائرہ اختیار بحال ہو گیا ہے اور اب کوئی بھی مقدمہ جس میں خواہ معمولی سی کرپشن کی رقم کا معاملہ وہ نیب کے دائرہ اختیار میں آ سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  دوسری اہم بات یہ ہے کہ نیب ترامیم کے ذریعے پارلیمانی اور کابینہ کمیٹیوں کے فیصلوں کو استثنٰی دیا گیا تھا لیکن اب اس استثنٰی کو ختم کردیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp