چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے آج معمول کے مقدمات کی سماعت کی۔ ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پہلے دن مختلف کیسز نمٹائے۔ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہمیں شوقیہ مقدمہ بازی کو بند کرنا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نمبر ون نے جہاں ملازمت سے متعلق ایک مقدمہ میں پاکستان پوسٹ کی درخواست خارج کی وہیں قتل کے کیس میں ضمانت منسوخی کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
بینچ نمبر ون نے سی ڈی اے لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے کیس میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی اور اسی طرح ملازمت بحالی کیلئے دائر اپیل میں وکیل کی استدعا پر دو ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
زمین کے تنازع سے متعلق کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل محمد منیر پراچہ سے دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ دوران سماعت وکیل محمد منیر پراچہ نے کہا کہ وہ مقدمہ واپس نہیں لے سکتے کیونکہ ان کا موکل بڑا سخت پٹھان ہے۔
جس پر چیف جسٹس بولے؛ پٹھان تو سب سے اچھے ہوتے ہیں، جتنا اخلاق آپ کو وہاں ملے گا ایسا کہیں اور نہیں، پٹھانوں کا بس یہ ہے کہ وہ دشمنی بڑی لمبی چلاتے ہیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر متعلقہ وکیل بولے؛ لگتا ہے میں نے غلط جگہ پر ایسی بات کردی۔ جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
اس موقع پر اپنے ساتھی ججز کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس بولے؛ مجھے نہیں لگتا کہ بینچ میں اس معاملے پر اتفاق رائے ہوگا۔ چیف جسٹس کے اس جملے پر بھی کمرہ عدالت میں بیشتر لوگ مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔
مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے چند ایک اہم ریمارکس دیتے ہوئے اپنی عدالتی پالیسی کا لائحہ عمل کا عندیہ بھی دیا۔ انہوں نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ ہمیں شوقیہ مقدمہ بازی کو بند کرنا ہے۔ یقینی طور پر اس پالیسی کا مقصد عدالت عظمی پر گیر ضروری مقدمات کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔
ایک اور مقدمہ میں جب متعلقہ وکیل نے کرائے کے معاہدے کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا موقف آدھا اردو اور آدھا انگریزی میں بیان کیا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ آپ نے ابھی دو زبانوں کا قتل کیا ہے، یا تو اردو میں بتائیں یا پوری انگریزی بولیں۔