پاکستان میں بجلی کے شارٹ فال کے باعث سولر پینل کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے اس کاروبار کے لیے بہت سی رعایات دے رکھی ہیں، سولر پینل امپورٹ کرنے والوں کو ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹی کی مکمل چھوٹ کی رعایت دی گئی ہے، تاہم ایف بی آر کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سولر پینل کے کاروبار کی آڑ میں 63 امپورٹرز نے مجموعی طور پر 69.5 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سولر پینل چین سے خریدے گئے لیکن رقم کی ادائیگی دبئی اور سنگاپور کے اکاؤنٹس میں کی گئی، منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف دو ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں تاہم ملزمان اب تک اشتہاری ہیں۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ سال 2017 سے 2022 کے دوران سولر پینل امپورٹ کرنے والی پشاور کی 2 کمپنیوں نے 72.83 ارب روپے سولر پینل امپورٹ کے لیے باہر بھیجے اور وہی سولر پینل پاکستان میں 45 ارب روپے کے فروخت کیے۔ سولر پینل کی خریداری کے لیے کئی گنا رقم ملک سے باہر بھیجی گئی۔
مزید پڑھیں
دونوں کمپنیاں پشاور کے ایک ہی پلازے میں کاروبار کر رہی ہیں اور دونوں کمپنیوں کے مابین بینک ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ سولر پینل چین سے امپورٹ کیے گئے جبکہ رقم دبئی کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کی گئی ہے، مقامی بینکوں سے چین کی جگہ دبئی اور سنگاپور کے بینکوں میں رقم ٹرانسفر کرنے پر اسٹیٹ بینک مقامی بینکوں سے تحقیقات کر رہا ہے۔ سال 2020-21 کے دوران انہی 2 امپورٹرز نے 20 ارب 40 کروڑ روپے ملک سے باہر بھیجے اور صفر انکم ٹیکس فائل کیا۔
ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق کسی بھی بینک سے ایک سال میں 2 کروڑ کی بیرون ملک کی گئی ٹرانزیکشنز پر اکاؤنٹ کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ منی لانڈرنگ تو نہیں تاہم برائٹ اسٹار بزنس سولوشن کمپنی نے 14 ارب روپے کی کیش بینک میں جمع کرائی اور متعدد بار ایک کروڑ سے زائد کی کیش ٹرانزیکشنز کیں، لیکن کسی بینک نے اس کی تحقیق نہ کی۔ اس طرح سال 2017 سے 22 تک سولر پینل امپورٹ کی مد میں 18 ارب روپے چین کی جگہ دوسرے ممالک میں ٹرانسفر کیے گئے۔
پاکستان سے سولر پینل کی امپورٹ کے نام پر اربوں کی منی لانڈرنگ کے بعد ایف بی آر نے رواں ماہ ستمبر میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جس میں پشاور کینٹ کے رہائشی برائٹ اسٹار بزنس سولوشن کمپنی کے ڈائریکٹر رب نواز، زینب نواز اور دیگر کو نامزد کیا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان نے سولر پینل کی امپورٹ میں 30 ارب 60 کروڑ کی رقم اوور بلنگ کر کے بیرون ملک بھیجی۔
ایف بی آر نے دوسری کمپنی مون لائٹ ٹریڈرز کے ڈائریکٹر شاہین مسلم ٹاؤن پشاور کے رہائشی زاہد اکبر کے خلاف ایف آئی آر بھی رواں ماہ ستمبر کی 2 تاریخ کو درج کی، ملزمان نے 25 ارب 69 کروڑ اور 7 ارب 12 کروڑ کی رقم سولر پینل کی امپورٹ کی آڑ میں بیرون ملک بھیجی۔
چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ سلیم مانڈوی والا نے کمیٹی کو بتایا کہ سولر پینل امپورٹرز نے ایک ہی کمپنی سے ایک ہی وقت میں ایک ہی تعداد میں خریدے، سولر پینل کی ادائیگی 200 فیصد زائد کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان سے پیسا باہر بھیجا جا سکے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور کسٹمز جیسے ادارے کے ہوتے ہوئے ایسی منی لانڈرنگ ہونا تشویش کی بات ہے، یہ سب اس وقت ہوا جب ادویات اور کوکنگ آئل جیسی دیگر ضروری اشیا کی امپورٹ پر پابندی تھی۔