گن پوائنٹ پر وارداتیں: کیا اسلام آباد بھی اب کراچی جیسا ہو گیا ہے؟

جمعرات 21 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گن پوائنٹ پر وارداتوں کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز بڑھتے کرائم اور دن دہاڑے مشہور شاہراہوں پر وارداتوں سے شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں جبکہ بہت سے لوگوں نے تو موبائل چھن جانے کے ڈر سے شام کو چہل قدمی ہی ترک کر دی ہے۔

عمر چیمہ، اعزاز سید سمیت دیگر اہم صحافیوں سے بھی گن پوائنٹ پر موبائل چھینے جا چکے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے حالات اب ویسے نہیں رہے جیسے پہلے تھے، اب ہر جگہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں جبکہ کسی بھی واردات کے ہونے کے بعد پولیس کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے، یہاں تک کہ ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی۔

وی نیوز نے اسلام آباد کرائم اینڈ کورٹ رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر، گزشتہ 30 سال سے روزنامہ جنگ کے کرائم رپورٹر اور گن پوائنٹ پر موبائل چھن جانے والوں سے گفتگو کی اور استفسار کیا کہ اسلام آباد میں کرائم کیوں تیزی سے بڑھ رہا ہے، کیا کراچی طرز کی وارداتیں یہاں بھی ہونے لگی ہیں اور پولیس کارکردگی کیسی ہے؟

’لوکل کرائم میں اسلام آباد تمام شہروں میں سرفہرست ہے‘

اسلام آباد کرائم اینڈ کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر صغیر چوہدری نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پاکستان کا وفاقی دارالحکومت ہے تاہم لوکل کرائم کے شہروں کی فہرست میں اسلام آباد پہلے نمبر پر آ گیا ہے، اسلام آباد میں کل 29 تھانے ہیں اور اگر آپ ہر ایک تھانے کا شام 4 بجے سے رات 12 بجے تک کا جائزہ لیں تو ہر روز ایک ایک تھانے میں 20 سے 25 افراد ایسے آ رہے ہوتے ہیں جن سے موبائل چھین لیا گیا ہو تاہم بیشتر کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتیں۔

صغیر چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد کے پوش علاقوں میں واک کرنے والوں، مارکیٹ میں خریداری کے لیے پیدل جانے والوں، گھر یا دفتر کے باہر کھڑے ہو کر فون پر بات کرنے والوں اور بائیکیا رائڈرز سے فون کا چھن جانا رواج بن چکا ہے۔

اسلام آباد میں وارداتوں کے بڑھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر کے لیے راستہ اسلام آباد کے قریب ہے اور کوئی بھی واردات کر کے بآسانی دوسرے صوبے جایا جا سکتا ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں بہت کثیر تعداد میں افغانی رہائش پذیر ہیں، اسلحہ موجود ہونے کے باعث افغانی گن پوائنٹ پر وارداتیں کر رہے ہیں، اسلام آباد سے 2 ایسے ڈکیتیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جنہوں نے چھوٹے سے شہر میں ایک ہی دن میں 8 وارداتیں کی تھیں۔

اسلام آباد کرائم اینڈ کورٹ رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر نے وی نیوز کو بتایا کہ اسلام آباد میں بڑھتی وارداتوں کی ایک اور وجہ پولیس کی نااہلی ہے، چھوٹے سے شہر میں 4 DIG اور 18 SSP اور  25 SP  تعینات ہیں، زیادہ افسران ہونے کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ کوآرڈینیشن نہیں ہے، جبکہ پولیس صرف وی وی آئی پی کیسز کی ریکوری پر توجہ دیتی ہے۔ اسلام آباد کے آئی جی کا فیلڈ کا تجربہ نہیں ہے، کرائم کنٹرول کرنے کے لیے قابلیت چاہیے ٹریننگ چاہیے لیکن دونوں نہیں ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے ایک ڈالفن طرز کی فورس بنائی ہے تاہم اس میں ایسے بوڑھے افراد تعینات کیے گئے ہیں کہ وہ کرائم کنٹرول نہیں کر پا رہے۔

روزنامہ جنگ کے سینیئر کرائم رپورٹر ایوب ناصر نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک دن میں رپورٹ ہونے والے 60 فیصد مقدمات چوری اور رہزنی کی وارداتوں سے متعلق ریکارڈ ہوتے ہیں۔ کرائم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے ناکوں پر چیکنگ نہیں کی جاتی،  دوسری جانب مہنگائی کے ستائے عوام بھی جرائم میں ملوث ہو گئے ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی وارداتوں میں 200 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

’بیروزگار نوجوان اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہیں‘

ایوب ناصر نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وارداتیں کرنے والے کوئی جرائم پیشہ افراد نہیں ہیں بلکہ موبائل چھیننے جیسی وارداتوں میں ملوث ایسے نوجوان ہیں جو کہ نوکری یا گھر والوں کے لیے پیسے کمانے کے لیے اسلام آباد آئے ہیں اور یہاں ان کو نوکری نہیں ملتی، ایسے لوگ ہاسٹلز میں رہتے ہیں اور یہاں سے وارداتوں کے ذریعے کمائی کر کے گھر والوں کو پیسے بھیجتے ہیں، ایسے نوجوان اسلام آباد کے تمام پوش سیکٹرز کے ہاسٹلز میں قیام پذیر ہیں۔

اسلام آباد میں ہونے والے جرائم کو 30 سال سے رپورٹ کرنے والے سینیئر صحافی کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں، لیکن پولیس کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایکشن لینے میں مشکلات کا سامنا ہے، جرائم کرنے والے صوبہ خیبر پختونخوا سے اسلحہ منگواتے ہیں اور اسلام آباد میں وارداتیں کرتے ہیں۔

سینیئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور سینیئر صحافی اعزاز سید اسلام آباد کے بلیو ایریا میں اپنے دفتر جیو بلڈنگ کے قریب چہل قدمی کر رہے تھے، اس دوران 3 موٹر سائیکل سوار آئے اور گن پوائنٹ پر ہم سے موبائل اور پیسے لے کر فرار ہو گئے۔

عمر چیمہ نے بتایا کہ ان کے پاس 4 لاکھ روپے مالیت کا آئی فون 14 تھا، ڈکیتوں نے ان سے آئی فون گن پوائنٹ پر ان لاک کرایا اور لے کر چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ موبائل فون چوری ہونے کے بعد پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کی مدد سے موبائل فون کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن فون نہ مل سکا جبکہ پولیس ڈکیتوں کو پکڑنے میں بھی ناکام رہی۔

پولیس کی بے حسی اور مبینہ بلیک میلنگ

اسلام آباد کے شہری ارشد علی خان نے وی نیوز کو بتایا کہ انہوں نے رات 8 بجے اسلام آباد کے سیکٹر جی 7 میں اپنے گھر کے باہر گاڑی کھڑی کی اور جیسے ہی گاڑی سے نیچے اترے تو پیچھے سے 2 موٹر سائیکل سوار آئے اور موبائل چھین کر فرار ہو گئے۔

ارشد علی خان نے کہا کہ پڑوسیوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں موٹر سائیکل سواروں کو دیکھا گیا تاہم شناخت نہ ہو سکی، پولیس نے ایف آئی آر درج تو کر دی لیکن پھر پولیس نے کسی پیشرفت کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی۔

شہری نے کہا کہ میں نے خود آئی کلاؤڈ سے اپنے موبائل کی لوکیشن معلوم کی تو پتا چلا کہ میرا فون چیچا وطنی میں ہے، پولیس کو بتایا تو پولیس نے کہا کہ آپ کو تفتیشی کے ساتھ جانا ہو گا اور اس سب میں خرچہ پانی بھی لگے گا جس پر میں نے پولیس کو کہا کہ میں تو چیچہ وطنی نہیں جا سکتا تاہم موبائل فون مل جانے پر خرچہ دے دوں گا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ اس کو ایک شخص کی چیچہ وطنی سے کال آئی کہ تفتیشی افسر نے اس سے کہا ہے کہ اس کے خلاف چوری کی ایف آئی آر درج ہے اور وہ مقدمے میں نامزد ہے اور اگر نام خارج کروانا ہے تو 50 ہزار روپے دے جس پر اس شخص نے تفتیشی کو 50 ہزار روپے دے دیے۔

ڈیٹا کی فراہمی سے پولیس کا اجتناب

وی نیوز نے اسلام آباد میں گن پوائنٹ پر بڑھتے ہوئے جرائم اور موبائل چھننے کے واقعات پر رابطہ کیا تو اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں کہ اسلام آباد میں جرائم بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔

پولیس کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال میں ہونے والے جرائم کا گزشتہ برسوں میں ہونے والے جرائم کے ساتھ موازانہ کیا جائے تو ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ جرائم بڑھے ہیں یا نہیں۔ وی نیوز نے 10 دن تک اسلام آباد پولیس کی جانب سے ریکارڈ کی فراہمی کا انتظار کیا تاہم کوئی جواب نہیں مل سکا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp