ورلڈ کپ 2023 کے لیے قومی ٹیم کا انتخاب بالآخر ہو ہی گیا اور جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا وہ خدشات بدقسمتی سے پورے بھی ہوئے یعنی پاکستان کے نوجوان فاسٹ بولر نسیم شاہ انجری کی وجہ سے ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے ہیں لیکن شاید اس سے بھی بُرا یہ ہوا کہ ان کی جگہ آزمودہ حسن علی کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
جب چیف سلیکٹر انضام الحق نے قومی ٹیم کا اعلان کیا تو ان کے سامنے کافی سخت سوال رکھے گئے جن کے وہ مناسب جواب دینے میں ناکام رہے۔ سب سے زیادہ سوالات تو حسن علی سے متعلق تھا۔
انضام الحق سے بار بار پوچھا گیا کہ حسن علی کا انتخاب کس بنیاد پر کیا گیا ہے؟ ایسی کونسی کارکردگی ہے جس نے سلیکشن کمیٹی کو متاثر کیا۔ ان سوالات کے اگرچہ انہوں نے کئی جواب دیے مگر تسلی جواب نہ دے سکے اور ان دیے گئے جواب کا خلاصہ صرف یہی نکلا کہ حسن علی تجربہ کار کھلاڑی ہیں اس وجہ سے انہیں ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
جہاں تک تجربے کی بات ہے تو یہ ٹھیک بھی ہے کیونکہ پاکستان کے 15 رکنی دستے میں حسن علی کے علاوہ کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جسے بین الاقوامی کرکٹ کھیلے ہوئے 10 سال ہوئے ہیں اور اس ناتجربہ کاری کے پس منظر میں حسن علی کا انتخاب ٹھیک ہے، مگر کیا انہیں پلیئنگ الیون میں واقعی ہونا چاہیے یہ بہت بڑا سوال ہے۔
یہ سوال اس لیے بھی ہے کہ انڈیا میں جو وکٹیں ہوتی ہیں ان میں فاسٹ بولرز کے لیے کچھ زیادہ سامان ہوتا نہیں اور یہاں عموماً وہی فاسٹ بولرز کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی رفتار کی بنیاد پر بیٹسمین کو پریشان کرنے کی صلاحیت رکھیں، لیکن انجری سے واپسی کے بعد سے حسن علی کی رفتار میں بہت کمی آئی ہے اور اگر وہ پلیئنگ الیون کا حصہ بنتے ہیں تو ہماری بولنگ لائن اپ میں سب سے کمزور پہلو ثابت ہوسکتے ہیں، ہاں شاداب خان مجھے یہاں غلط ثابت کرسکتے ہیں۔
اسی پریس کانفرنس میں انضام الحق سے عماد وسیم اور سرفراز احمد سے متعلق بھی سوال ہوئے لیکن انضمام الحق نے جو جواب دیے انہیں سن کر ایسا لگا جیسے انضام الحق اچھی تیار کرکے نہیں آئے تھے۔
یہ کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عماد وسیم سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ عماد نے کئی عرصے سے ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیلی اور کھلاڑیوں کے انتخاب میں یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جس کھلاڑی کو بھی ٹیم انتخاب کے لیے دلچسپی دکھانی ہے وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلے اور ٹیم میں شامل ہوجائے کیونکہ ان کی کسی بھی کھلاڑی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔
اگر تو یہ بات ان کی درست ہے تو پھر وہ سرفراز احمد سے متعلق کیا کہیں گے کیونکہ اگر 2023 میں ہونے والی فرسٹ کلاس کرکٹ کا ذکر کریں تو سرفراز احمد نے نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں پہلی اننگ میں 78 رنز اور دوسری میں 118 رنز بنائے۔ اسی طرح جو فرسٹ کلاس میں اننگز کھیلی ہیں ان میں 1 سنچری اور 2 نصف سنچری اسکور کی ہے، مگر اس کارکردگی کے باوجود انہیں موقع نہیں دیا گیا جبکہ ان کی جگہ محمد حارث کو ریزرو کھلاڑی کے طور پر منتخب کیا ہے۔
اب اگر محمد حارث اور سرفراز احمد کے ایک روزہ کیریئر پر بات کریں تو اس میں بہت فرق ہے اور جس تجربے کی بنیاد پر حسن علی کو بغیر کسی پرفارمنس کے ٹیم میں شامل کیا گیا ہے وہاں پرفارمنس کے بعد باوجود سرفراز احمد کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟ اس بارے میں مکمل خاموشی ہے۔
چلیں اب سرفراز احمد اور محمد حارث کے کیریئر پر نظر ڈالتے ہیں۔ سرفراز احمد نے 117 میچوں میں 33.55 کی اوسط سے 2315 رنز بنائے۔ ان کے کیریئر میں 2 سنچریاں اور 11 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ دوسری طرف محمد حارث نے 6 میچوں میں 7.50 کی اوسط سے 30 رنز بنائے ہیں۔
میں اس صورتحال کے بعد کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ یہاں ٹیم کو تجربے کی ضرورت تھی یا نہیں اور فارم کے بعد بھی اگر کسی کھلاڑی کو موقع نہیں دیا گیا تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔
اب آتے ہیں بولنگ لائن اپ پر، اگر حسن علی کو تجربے کی بنیاد پر نسیم شاہ کی جگہ شامل کرنا ناگزیر تھا تو ٹھیک ہے، کپتان اور سلیکشن کمیٹی بہتر جانتی ہے مگر محمد وسیم جونیئر کی جگہ زمان خان کو ضرور شامل کرنا چاہیے تھا کیونکہ زمان خان نہ صرف اٹیک کرنے میں بہتر ہیں بلکہ آخری اووز میں بھی وہ خود کو کئی بار کارگر ثابت کرچکے ہیں۔
لیکن ان تمام تر باتوں کو صرف اس بنیاد پر نظر انداز کیا جاسکتا ہے اگر کپتان بابر اعظم مکمل اعتماد سے کہہ سکیں کہ یہ ان کی ٹیم ہے، ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی کارکردگی اچھی نہیں رہے تو بابر یہ کہہ دیں کہ انہیں وہ ٹیم نہ مل سکی جو انہیں چاہیے تھی۔
اس تحریر کے اختتام پر انضام الحق سے بھی گزارش ہے کہ پریس کانفرنس میں آتے ہوئے اچھی طرح تیاری کرلیا کریں، جن کھلاڑیوں کو بھی منتخب کیا جائے ان کے بارے میں ٹھوس وجوہات ہوں اور جن کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا جائے ان کے بارے میں بھی آپ کے پاس ایسی وجوہات ہوں جن پر بھروسہ کرنے کو دل راضی ہوجائے۔