وقت پر انتخابات کا موقع عمران خان کی وجہ سے ضائع ہوا، سابق اٹارنی جنرل

پیر 25 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان شاہ خاور نے کہا ہے کہ ملک میں وقت پر انتخابات کا موقع عمران خان کی وجہ سے ضائع ہوا، ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اگر پی ٹی آئی تعاون کرتی تو انتخابات شاید وقت سے بھی پہلے ہو جاتے۔

’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پنجاب الیکشن التوا کے کیس کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کو بلا کر ایک ہی وقت میں انتخابات پر اتفاق رائے قائم کرنے کا کہا گیا تھا، اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی ایک کمیٹی بنی تھی جس نے پی ڈی ایم کے ساتھ مذاکرات کیے اور کافی ساری چیزیں طے بھی ہو گئی تھیں۔

شاہ خاور کے مطابق ملک میں ایک ہی وقت بروقت انتخابات کا معاملہ صرف اس حد تک رہ گیا تھا کہ بجٹ کی منظوری سے قبل اسمبلیاں توڑی جائیں یا بعد میں، لیکن چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ان مذاکرات کو جاری نہیں رکھا اور اس بات پر مصر رہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 90 روز میں ہونے چاہییں۔

سابق اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں پی ٹی آئی سے کہتا رہا کہ اگر اکتوبر میں انتخابات پر باقی جماعتیں راضی ہو جاتی ہیں تو عمران خان کو بھی اس سے اتفاق کرنا چاہیے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک وقت تھا اگر تب پی ٹی آئی تعاون کرتی تو انتخابات شاید وقت سے پہلے ہو جاتے‘۔

عمران خان کی جلد رہائی ممکن نہیں

شاہ خاور نے کہاکہ ویسے تو عمران خان کے خلاف 200 کے قریب مقدمات درج ہیں جس کو وہ قانون کا غلط استعمال سمجھتے ہیں، لیکن ان میں 3، 4 مقدمات میں ان پر انتہائی سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں جن کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جلد رہائی ممکن نہیں۔

قاضی فائز عیسٰی کی چیف جسٹس تعیناتی کے بعد بظاہر نظر آنے والی چیزیں بہت اہم ہیں

سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان شاہ خاور نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی سے بظاہر جو چیزیں نظرآ رہی ہیں وہ بہت اہم اور مثبت ہیں، سب سے اہم بات کہ انہوں نے صدر پاکستان عارف علوی سے حلف لیا جنہوں نے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا تھا، دوسرا انہوں نے اردو، انگریزی دونوں زبانوں میں حلف دُہرایا جس کی علامتی حیثیت بہت بڑی ہے اور تیسرا انہوں نے اپنے حلف کے دوران اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ کھڑا کیا جس سے انہوں نے نا صرف خواتین کی معاشرے میں اہمیت بلکہ اس تکلیف کو بھی اجاگر کیا جس سے ان کی اہلیہ گزری تھیں۔

شاہ خاور نے کہاکہ چیف جسٹس بننے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسٰی پیدل سپریم کورٹ آتے تھے لیکن چیف جسٹس بننے کے بعد انہوں نے غالباً سیکیورٹی کی ہدایت پر بذریعہ کار آنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن وہاں بھی انہوں نے بڑی گاڑی کے بجائے صرف ایک 1300 سی سی کار استعمال کی اور بطور چیف جسٹس پہلی بار آمد پر انہوں نے گارڈ آف آنر لینے سے بھی انکار کیا جو اس سے پہلے ایک روایت تھی۔

فل کورٹ بنانے کا کہتے رہے اور اب ایسا کر کے دکھا دیا

شاہ خاور نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے اختلافی نوٹ میں کہتے رہے کہ اہم نوعیت کے آئینی مقدمات میں فل کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے، اب انہوں نے منصب سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جس پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناع جاری کر رکھا تھا اس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنایا اور اس کو براہِ راست نشریات کے ذریعے دکھانے کے احکامات بھی جاری کیے جس سے ایکٹ کے بارے میں مثبت، منفی تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔

کیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے آنے سے سپریم کورٹ میں تقسیم ختم ہو پائے گی؟

سپریم کورٹ کے ججوں میں تقسیم کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شاہ خاور نے کہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس نے جو بینچ بنایا اس میں ان تمام 7 ججوں کو بھی شامل کیا جن کے بارے میں بظاہر تاثر تھا کہ یہ ان کے خلاف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بینچ کی تشکیل کے لیے دو سینیئر جج صاحبان سے مشاورت بھی کی۔ ’چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تو وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم کے تاثر کو ختم ہونے میں وقت لگے گا‘۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایک حد تک نافذالعمل ہو چکا ہے

شاہ خاور نے کہا کہ بینچوں کی تشکیل میں 2 سینیئر جج صاحبان سے مشاورت کی حد تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ ہو چکا ہے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی 2 سینیئر جج صاحبان کی مشاورت سے بینچوں کی تشکیل کر رہے ہیں۔

فیض آباد دھرنا نظر ثانی مقدمے کے بہت اہم مضمرات ہیں

شاہ خاور نے کہاکہ فیض آباد دھرنا کیس بہت اہم ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کے پس منظر میں بھی یہی فیصلہ تھا۔ اس فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے بارے میں نا صرف ریمارکس دیے بلکہ ان کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور تادیبی کارروائی کی بھی سفارش کی تھی۔ اب اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہے، اب فیصلہ کیا آئے گا یہ بہت اہم ہے۔

شاہ خاور نے کہاکہ نظرثانی درخواست کا اسکوپ بہت محدود ہوتا ہے اور اس میں صرف فیصلے میں نقص کو اجاگر کرنا ہوتا ہے اور دوسری صورتوں میں فیصلہ برقرار ہی رہتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی تقرری عمران خان کے لیے کتنی اہم ہے؟

جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم تھے تو سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں سنیں گے، اس تناظر میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس تقرری عمران خان کے لیے مثبت اثرات کی حامل ہے یا منفی؟۔

اس سوال کے جواب میں شاہ خاور نے کہاکہ ابھی ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جسٹس منصور علی شاہ کی بینچ میں موجودگی پر اعتراض کیا تو انہوں نے فی الفور خود کو بینچ سے الگ کر لیا لیکن جسٹس جواد ایس خواجہ سے ایک مقدمے میں کہا گیا کہ وہ یہ مقدمہ نہ سنیں تو انہوں نے درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ وہ اس پر اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اس چیز کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔

شاہ خاور نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں اگر کسی جج کے بارے میں تھوڑا سا بھی تاثر ہو کہ ان کا کوئی ذاتی عناد مقدمے میں شامل ہے تو انہیں خود کو سماعت سے الگ کر لینا چاہیے۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل رہا ہے

ایک سوال کہ آیا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے بارے میں جو تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ کسی کے زیراثر ہیں اور ایک خاص طرف ان کا جھکاؤ ہوتا ہے، آیا عدلیہ کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو سکتا ہے؟۔ اس سوال کے جواب میں شاہ خاور نے کہاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل تو رہا ہے اور ماتحت عدلیہ پر بھی۔ اس سلسلے میں ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر بہت اعلیٰ ذرائع سے اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی جس کا اظہار انہوں نے بار ایسوسی ایشن سے اپنے خطاب میں کیا اور نتیجتاً انہیں اپنا منصب چھوڑنا پڑا۔

بار اور بینچ مل کر عدلیہ سے بیرونی اثرات اور دباؤ کو ختم کر سکتے ہیں

شاہ خاور نے کہاکہ بار اور بینچ میں اگر اچھا پیشہ ورانہ تعامل اور تال میل ہو تو عدلیہ پر اثرانداز ہونے اور دباؤ ڈالے جانے کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم نے یہ دیکھا ہے کہ بار اور بینچ کے درمیان اعتماد کا فقدان ہوتا ہے جس سے بیرونی دباؤ کو اثرانداز ہونے کا راستہ مل جاتا ہے۔

’عدلیہ پر کسی مقدمے میں دباؤ کے حوالے سے میں کوئی واقعہ تو شیئر نہیں کر سکتا کیونکہ ہمیں انہی عدالتوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ لیکن جب کوئی آئینی، قانونی یا اہم نوعیت کا مقدمہ زیرسماعت ہو تو کیس مقرر ہوتے ہی اس کے بارے میں پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ اس کا متوقع فیصلہ کیا آئے گا‘۔

آئین اور قانون سے ہٹ کر ججوں کی دلی خواہشات کا نظر آنا افسوسناک ہے

شاہ خاور نے کہاکہ عدلیہ کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ کسی مخصوص اثر کے تحت کام کرتی ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے اور پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری عدلیہ کسی قسم کی جانبداری سے باہر ہو گئی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آئین اور قانون سے ہٹ کر ججوں کے عمل اور ان کے ریمارکس سے ان کی دلی خواہشات اور ان کا کس طرف جھکاؤ ہے وہ نظر آتا رہا ہے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ نہیں آنا چاہیے۔

ججوں کی مدت ملازمت کے دوران ان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ہونا چاہیے

شاہ خاور نے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے ججوں کے خلاف بہت سارے ریفرنسز عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو ضمانت نہیں ملی یا کسی کی کوئی ذاتی رنجش ہے تو اس نے درخواست دائر کر دی۔ لیکن کچھ ریفرنسز سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں جیسا کہ اگر کوئی ریفرنس پاکستان بار کونسل نے بھیجا ہے یا وہ کسی اور معتبر ذرائع سے آیا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر مہینے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہو، جس میں جائزہ لینے کے بعد فضول نوعیت کی شکایات کو مسترد کر دیا جائے، لیکن جو سنجیدہ نوعیت کی شکایات ہوں ان کا فیصلہ جج صاحب کی ملازمت کی مدت کے دوران ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ ریٹائر ہو جائیں تو ان پر ایک داغ رہ جاتا ہے کہ ان کے خلاف سنجیدہ نوعیت کا اعتراض تھا جس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp