فیض آباد دھرنا کیس: حکومت نے فیصلہ پر عمل درآمد کا اعلان کردیا

جمعرات 28 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف نے بھی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کردی۔ وفاق کی جانب سے عدالت عظمی کے فیصلہ پر عملدرآمد کی یقین دہانی پر عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی ہے۔

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کرنیوالے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں، سچ بولنے سے ہر کوئی کترا کیوں رہا ہے۔

عدالتی استفسار پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ وہ نظر ثانی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے، پی ٹی آئی فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ وہ تیسری مرتبہ شرعی اصول کے تحت پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ واقعی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وہ ہدایات کی روشنی میں کہہ رہے ہیں کہ وہ دفاع نہیں کرنا چاہتے، جس پرچیف جسٹس بولے؛ آپ اچھی شہرت کے وکیل ہیں، ہمیں آپ پر یقین ہے۔

پیمرا کے وکیل حافظ احسان نے بھی عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی نظر ثانی اپیل واپس لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں، یوٹیوب چینلز پر تبصرے کیے جاتے ہیں، عوامی اداروں کے بارے میں ایسا نہ کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ حکم نہیں بلکہ درخواست ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو تحریری صورت میں کرے، عرفان قادر صاحب کو نوٹس کردیے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی درخواست واپس لینے کے فیصلہ پر چیف جسٹس بولے؛ الیکشن کمیشن کا بہت بڑا اسٹیٹس ہے، آپ نے ایک قانون کے بارے میں کہا تھا یہ مصنوعی قانون ہے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اب طویل وقت گزر چکا ہے، اب حکومت اور الیکشن کمیشن کافی دانشمند ہو گئے ہیں۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ،یہ ریگولر بینچ ہے خصوصی بینچ نہیں، نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں،مگر یہ چار سال مقرر نہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے، اس لیے اس بینچ کے سامنے یہ کیس نہیں لگا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اپنی نظر ثانی کی درخواست واپس لینا چاہتا ہے، عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ درخواست واپس لینے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے، عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کیے رکھا۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم درخواست واپس لے رہے ہیں، یا تو آپ کہیں دھرنے والوں کے ساتھ معاہدے پر جس کے دستخط تھے ان کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں، یا تو بتائیں نا کہ ہم نے فیصلے کی فلاں فلاں باتوں پر عمل کر لیا، یا پھر ایسے ہی اگلی افرا تفری تک رہنے دینا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگی۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 12 مئی کو پاکستانی سیاست میں نئی چیز کنٹینرز متعارف ہوئی۔ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے، جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں۔

چیف جسٹس بولے؛ کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں آکر بتائیں، ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں،کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔ ہم پیمرا کی درخواست زیر التو رکھیں گے کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کی تھی یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاؤ نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے؟ کیا ہوا؟ اس پر بھی مٹی پاؤ؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو۔ الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا یہ ادارہ ہے ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں۔

شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا مزید دلائل دینا ہیں اسے آئندہ سماعت پر رکھ لیتے ہیں۔ ’سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔‘

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیے کہ کیا سارے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے ، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنہیں نظرثانی کی اپیل دائر کرنا چاہیے تھی انہوں نے نہیں کی۔ تحریک لبیک نے کوئی نظر ثانی دائر نہیں کی فیصلہ تسلیم کیا۔ مرحوم خادم رضوی کی اس بات پر تعریف بنتی ہے غلطیاں سب سے ہوتی ہیں غلطیاں تسلیم کرنا بڑی بات ہے۔

پیمرا کے وکیل حافظ احسان کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا کو کہا گیا تھا کہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا یا پھر یہ فیصلہ بورڈ میٹنگ میں ہوا تھا، پاکستان میں یہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے، نعوذ باللہ! اللہ کی طرف سے نہیں کہیں اور سے حکم آتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس بولے؛ عدالت ضرور آئیں مگر عدالت کو استعال نہ کریں، پہلے سچ کو تسلیم تو کریں ،اعتراف جرم تو کریں اگر جرم ہوا ہے، کہیں نا اس وقت الیکشن کمیشن کو ایک فرد واحد کے حوالے کر رکھا تھا۔ جس پر حافظ احسان بولے؛ جب میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوں گا تو بولوں گا۔

اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بتائیں نہ 2017 میں دھرنا کیسے ہوا، معاملات کیسے چل رہے تھے، ہم نے 12 مئی جیسے واقعات سے سبق نہیں سیکھا، وہ صاحب کدھر ہیں جن کو جمہوریت چاہیے تھی، وہ کینیڈا سے پاکستان کیوں نہیں آئے، آپ جھتے بازی کے رجحان کو آج بھی فروغ دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے دھرنا کیس فیصلے پر عملدآمد کی صورت میں اپنے متعلقہ حصہ کا فیصلہ پڑھنے کا بھی کہا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے جب متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا تو چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اس پر عملدامد کہاں ہوا، وہ بتائیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں، الیکشن کمیشن کانظر ثانی دائر کرنے  پر معافی نامہ کدھر ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی کی جانب سے کیس ملتوی کرنے کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ وزیر بن گئے ہیں، تو اپنا متبادل مقرر کر کے جائیں۔ ایم کیو ایم کے وکیل کی غیر حاضری پر چیف جسٹس بولے؛ ایم کیو ایم کے ایک وزیر تھے آج ان کی طرف سے کوئی نہیں آیا۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر بھی سنایا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات پر صحیح سمت میں عمل کی یقین دہانی پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ اللہ نے سورہ توبہ کی آیت 19 میں سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا کہا ہے۔ آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔

عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلہ پر عملدرآمد کی رپورٹ کے لیے 2 ماہ کی مہلت طلب کی تاہم عدالت نے اٹارنی جنرل کی 2 ماہ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے کہا فیصلہ پر عملدرآمد کو ریکارڈ پر لائیں گے، کچھ فریقین نے کہا عدالت نے فیصلے سے پہلے ان کو سنا نہیں، ایسے موقف حیران کن تھے کیونکہ سماعت اوپن کورٹ میں ہوئی تھی۔

عدالت نے شیخ رشید کے وکیل امان اللہ کنرانی کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو وکلا آج پیش نہیں ہوئے آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں۔ عدالت نے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جواب طلب کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp