انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے حلقہ بندیوں کے مسودے میں مساوی رائے دہی کے اصول کو یہ جانتے ہوئے پامال کیا ہے کہ ہر 5 میں سے ایک سے زیادہ حلقے 10 فیصد آبادی کے فرق سے تجاوز کر رہے ہیں۔
انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے پاکستان میں عام انتخابات اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے حلقہ بندیوں سے متعلق اپنی جائزہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔
فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 180 حلقے آبادی میں 10 فیصد فرق کی قانونی ترجیح پر پورا نہیں اترتے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 20 فیصد سے زیادہ مجوزہ حلقوں کی آبادی میں کمی بیشی کی شرح 10 فیصد کی قانونی حد سے متجاوز ہے۔
مزید پڑھیں
فافن کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مساوی رائے دہی کے اصول کو کمزور کرتا ہے جسے پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں تازہ ترین ترامیم کے ذریعے برقرار رکھا تھا۔
اسمبلی حلقوں کی آبادی میں فرق 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، فافن
فافن نے کہا کہ پارلیمانی منظوری کے بعد 4 اگست 2023 کو نافذ کی گئی ترامیم کے مطابق کمیشن سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ضلعی حدود کو نظر انداز کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اسمبلی کے حلقوں کی آبادی میں فرق عام طور پر 10 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔
فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انتخابی حلقوں کی آبادی میں فرق کی نشاندہی اسمبلی کی فی نشست اوسط آبادی کے ساتھ کسی حلقے کی آبادی کا موازنہ کرکے کی جاسکتی ہے، جسے کوٹہ فی سیٹ بھی کہا جاتا ہے۔
فافن کے مطابق جیسا کہ آئین اور آخری سرکاری مردم شماری میں فراہم کیا گیا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد یا کوٹہ کا حساب صوبے کی آبادی کو تقسیم کر کے کیا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی کے ہر حلقے کے لیے خیبر پختونخوا کا کوٹہ 9 لاکھ 7 ہزار 913، اسلام آباد میں 7 لاکھ 87 ہزار 954، پنجاب کا 9 لاکھ 5 ہزار 595، سندھ کا 9 لاکھ 13 ہزار 52 اور بلوچستان کا 9 لاکھ 30 ہزار 900 ہے۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے لیے صوبائی اسمبلی کا کوٹہ 3 لاکھ 55 ہزار 270، پنجاب کے لیے 4 لاکھ 29 ہزار 929، سندھ کا 4 لاکھ 28 ہزار 432 اور بلوچستان کا 2 لاکھ 92 ہزار 47 مقرر کیا گیا ہے۔
فافن کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیاں 2023 کی ابتدائی رپورٹ اور حلقہ بندیوں کی مسودہ فہرستوں کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی کے فرق کو کم سے کم کرنے اور اسمبلی کے حلقوں میں ووٹوں کی برابری کو یقینی نہیں بنایا گیا۔
فافن کا کہنا ہے کہ قانون میں حال ہی میں شامل کی گئی نئی شق صرف قومی اسمبلی کے 11 حلقوں کو محدود کرنے میں استعمال کی گئی ہے جن میں خیبر پختونخوا میں 6، پنجاب میں 3 اور سندھ میں 2 اور پنجاب اسمبلی کا ایک حلقہ شامل ہے۔
اس کے نتیجے میں 2022 کی حلقہ بندیوں میں آبادی میں 10 فیصد سے زیادہ فرق والے حلقوں کی تعداد 170 یعنی 82 قومی اسمبلی اور 88 صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے بڑھ کر 2023 کے مسودے کی فہرستوں میں 180 یعنی 83 قومی اسمبلی اور 97 صوبائی اسمبلی کے حلقے ہو گئے ہیں۔
حلقوں کی حد بندی ایکٹ 2017 کے مطابق نہیں، فافن
اس کا مطلب یہ ہے کہ جن حلقوں کی حد بندی کی گئی ہے ان کا پانچواں حصہ بھی الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 20 (3) کے مطابق نہیں ہے۔
مجوزہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں پنجاب کے 35، سندھ کے 22، خیبر پختونخوا کے 21 اور بلوچستان کے 5 حلقے شامل ہیں۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے 30، پنجاب کے 26، بلوچستان کے 25 اور سندھ کے 16 حلقے شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن نے الیکشن رولز 2017 کے رولز 10 (4) اور 10 (5) کو اپ ڈیٹ نہیں کیا
فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کا ماننا ہے کہ اسمبلی کے حلقوں میں آبادی میں عدم مساوات کا مسئلہ برقرار ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے حالیہ ترمیم کے تحت فراہم کردہ سیکشن 20 (3) کی روح کی عکاسی کرنے کے لیے الیکشن رولز 2017 کے رولز 10 (4) اور 10 (5) کو اپ ڈیٹ نہیں کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’غیر معمولی معاملات میں موجودہ ضلعی حدود پر سختی سے عمل کرنا ضروری نہیں ہوگا‘۔
تاہم الیکشن رولز 2017 کی شق 10 (5) کے تحت ایک شرط الیکشن کمیشن کو اجازت دیتی ہے کہ وہ ضلع کی کل آبادی کو اس ضلع کے لیے مختص نشستوں کی تعداد کے مطابق تقسیم کرکے آبادی کے فرق کے تعین کے لیے کوٹے کا تعین کر سکے۔
اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے سب سے بڑے حلقہ این اے 39 بنوں کی آبادی 13 لاکھ 57 ہزار 890 ہے جو سب سے چھوٹے حلقے این اے ون چترال اپر کم چترال لوئر سے تقریباً 3 گنا بڑا ہے جس کی آبادی 5 لاکھ 15 ہزار 935 ہے۔
اسی طرح پنجاب میں قومی اسمبلی کا سب سے بڑا مجوزہ حلقہ این اے 49 اٹک ون ہے جس کی آبادی 11 لاکھ 26 ہزار 142 ہے جبکہ سب سے چھوٹا حلقہ این اے 61 جہلم ٹو ہے جس کی آبادی 6 لاکھ 90 ہزار 683 ہے۔
سندھ میں این اے 209 سانگھڑ ون کی آبادی 11 لاکھ 72 ہزار 516 جبکہ این اے 221 ٹنڈو محمد خان کی آبادی 7 لاکھ 26 ہزار 119 ہے۔
بلوچستان کے حلقہ این اے 255 سہبت پور، جعفر آباد، استا محمداور ناصر آباد کی مجموعی آبادی 11 لاکھ 24 ہزار 567 افراد پر مشتمل ہے جبکہ این اے 261 کوئٹہ ون کی آبادی 7 لاکھ 99 ہزار 886 ہے۔
خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے حلقہ پی کے 93 ہنگو (528,902) میں سب سے چھوٹی آبادی یعنی پی کے 1 اپر چترال (195,528) کی آبادی سے تقریباً 3 گنا زیادہ آبادی ہے۔
اسی طرح سندھ کے سب سے بڑے حلقہ پی اے 75 ٹھٹھہ ون کی آبادی 5 لاکھ 56 ہزار 767 ہے جبکہ پی ایس 79 جامشورو ٹو 3 لاکھ 54 ہزار 505 آبادی کے ساتھ سب سے چھوٹا حلقہ ہے۔
پنجاب کے سب سے بڑے حلقہ پی پی 177 قصور 3 کی آبادی 5 لاکھ 10 ہزار 875 ہے جبکہ سب سے چھوٹے حلقہ پی پی 84 خوشاب 4 کی آبادی 3 لاکھ 59 ہزار 367 ہے۔
بلوچستان میں 4 لاکھ 66 ہزار 218 کی آبادی والا حلقہ پی بی 51 چمن سب سے بڑا حلقہ ہے جو سب سے چھوٹے حلقے پی بی 23 آواران سے ڈھائی گنا بڑا ہے جس کی آبادی ایک لاکھ 78 ہزار 958 ہے۔
انتخابات کے نگراں ادارے فافن کا مزید کہنا ہے کہ حلقوں کی آبادی میں اس طرح کے عدم مساوات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر رائے دہندگان کی جانب سے زیادہ تعداد میں نمائندگی کی جا سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن درخواست جمع کرانے کا عمل ووٹر فرینڈلی بنائے، فافن
فافن نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابی حلقوں کے مسودے میں مساوی نمائندگی دینے کے عمل میں رائے دہندگان کی درخواستوں کو بھی شامل کرے۔
اس وقت حلقہ بندیوں کے حوالے سے درخواست دائر کرنے کے خواہشمند ہر ووٹر کو اسلام آباد جانا پڑتا ہے اور بعد ازاں الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ میں سماعت کے لیے بھی جانا پڑتا ہے جس کے لیے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
فافن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے ضلعی، علاقائی اور صوبائی دفاتر میں درخواستیں جمع کرانے کی اجازت دینے پر غور کر سکتا ہے۔ اسی طرح، ان درخواستوں پر سماعت کا انتظام صوبائی سطح پر کیا جا سکتا ہے۔
فافن نے الیکشن کمیشن پر زور دیا کہ وہ پاکستان ادارہ شماریات (پی بی ایس) کو ہدایت کرے کہ وہ مردم شماری کے بلاک وائز اعداد و شمار کو فوری طور پر اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے کیوں رول 12 (2) کے تحت رائے دہندگان کو درخواستیں جمع کرانے کے لیے اس ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔