ملالہ یوسفزئی۔۔۔تم سوچتی تو ہو گی!

پیر 9 اکتوبر 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر 9 نومبر 2012 کو دہشتگردوں نے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اس موقع پر لکھی گئی یہ تحریر اس دن کی مناسبت سے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔

زندگی اور موت کی کشمکش کے مابین، ٹوٹتی سانسوں اور ڈوبتی دھڑکنوں کے درمیان، سرہانے لگی گلوکوز کی ڈرپ اور خون کی قطرہ، قطرہ چلتی بوتلوں کے ساتھ، جسم میں پیوست سرنجوں اور ٹیوبوں کے سہارے، سر میں ایک گولی کاسوراخ لیے، گردن میں پھنسی دوسری گولی کی اذیت میں، زخمی ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف سہتے ہوئے، ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال منتقل ہوتے ہوئے، دنیا و مافیہا سے بے خبر، اجنبی سے اسٹریچر پر لیٹے ہوئے، ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہجوم میں، ٹی وی چینلز پر لمحہ بہ لمحہ چلنے والی بریکنگ نیوز سے بے خبر، اخبارات میں بھرے صفحات سے ماورا، سوشل میڈیا پر ہونے والی دعاؤں کے احساس کے بغیر، ملالہ یوسفزئی، تم ہوش اور بے ہوشی کے درمیان سوچتی تو ہو گی۔یہ سوال ذہن میں آتا تو ہوگا کہ ’آخر تمہارا قصور کیا تھا؟‘۔

14 سال کی ایک بچی کا کیا قصور ہو سکتا ہے۔ کیا اتنی معصوم کسی پر کوئی ظلم ڈھا سکتی ہے۔ کسی کا کوئی بُرا چاہا سکتی ہے۔ کون سے گناہ کر سکتی ہے۔ کون سی افتاد گرا سکتی ہے۔ کیسے کسی ظالم کا ہاتھ روک سکتی ہے؟، کیسے کسی جابر کا مقابلہ کر سکتی ہے؟۔ہوش اور نیم بے ہوشی کے درمیان تم سوچتی تو ہو گی کہ خطا ہی کیا ہوئی ہے تم سے؟ خواہش ہی کون سی کی ہے تم نے؟ بس اتنی سی بات کہ تمہیں اسکول جانے کی اجازت دی جائے۔

سہیلیوں کے سنگ کھیلنے پر پابندی نہ ہو۔ ڈائری کے ورق لکھنے سے کوئی نہ روکے۔ تمہارے گرد دھماکوں کی لرزش نہ ہو۔ بندوقوں کی گھن گرج نہ ہو۔ معصوم لوگوں کی لاشوں کے انبار نہ ہوں۔ خوف نہ ہو، ہراس نہ ہو۔یہ تو ایسی کوئی بری بات نہیں۔ یہ تو ایسا کوئی قصور نہیں۔ یہ کوئی ایسی خطاتونہیں۔

میں اشکبار آنکھوں سے تمہاری تصویریں دیکھتا ہوں۔ ہر تصویر میں تمہاری معصومیت عیاں ہے۔ اپنی کمر پہ اسکول کا بستہ اٹھائے،  چہرے پہ ذہانت لیے، ہاتھ میں ڈائری سنبھالے، تم نے کب کہا تھا کہ تم دُنیا بدل دو گی۔ تم نے کب دعویٰ کیا تھا کہ تمہارے وجود سے ظلم ختم ہو جائے گا۔

تم نے کب دہشت گردوں، ظالموں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔ تم نے کب کہا تھا کہ تم ان کے خلاف کوئی محاذ کھولو گی، ان کو مات دو گی۔امن کی تحریک کا بھی تم نے نہیں سوچا تھا۔

ظالموں کو نیست و نابود کرنا بھی تمہارا عزم نہیں تھا۔ تم تو صرف اتنا سوچتی تھیں، اتنی سی خواہش رکھتی تھیں کہ تمہیں اسکول جانے دیا جائے۔ کھلونوں سے کھیلنے دیا جائے۔ سہیلیوں سے ملنے دیا جائے۔

ہوش اور نیم بے ہوشی کے درمیان تم کو اپنی ڈائری کے ورق تو یاد آتے ہوں گے۔ دو چوزوں کی کہانی بھی تم ذہن میں دہراتی ہو گی۔ وہ دن بھی یاد آتا ہو گا جب تم کو بخار تھا اور اگلے دن امتحان بھی تھا۔ تم نے ساری رات پڑھا تھا۔ تم کو سائنس کا وہ پیپر بھی یاد ہوگا جس میں 10 میں سے 8 سوال کرنے تھے اور تم کو سارے سوال آتے تھے۔سب جواب معلوم تھے۔

مگر آج جو سوال تم اپنے قصور کے حوالے سے کر رہی ہو اس کا جواب کب کسے معلوم ہے۔تم اس واقعے کو بھی یاد کرتی ہو گی جب تمہارا 5 سالہ بھائی لان میں کھیل رہا تھا اور تمہارے والد نے پوچھا مٹی سے کیا بنا رہے ہو، تو معصوم بچے نے جواب دیا کہ میں قبریں بنا رہا ہوں۔

انہیں پھولوں سے سجا رہا ہوں۔ ننھا سا ذہن مرنے والوں کو بس یہی احترام دے سکتا تھا۔ امن کا یہی پیام دے سکتا تھا۔

ہوش اور نیم بے ہوشی کے درمیان تم سوچ تو رہی ہو گی کہ کیا تمہارا اسکول اب جل کر راکھ ہو گیا ہوگا؟ تمہاری ڈائری کے سب ورق خاک ہو چکے ہوں گے؟ تمہاری کتابوں کو آگ لگ گئی ہو گی؟ امن کا ایوارڈ چکنا چور ہو چکا ہوگا؟کیا تمہارے گھر پر کوئی بم پھٹ چکا ہو گا؟ کیا تمہارے بھائی اب تک سلامت ہوں گے؟ تمہاری سہیلیاں جو اسکول وین میں تمہارے ساتھ تھیں کیا بچ گئی ہوں گی؟ کیا تمہارے سر کے ساتھ ساتھ تمہاری چادر میں بھی سوراخ ہو گیا ہو گا؟ تمہارا یونیفارم تمہارے ہی خون سے رنگ گیا ہو گا؟ بالوں کا کلِپ گولی لگنے سے سر سے جدا ہو گیا ہو گا؟ تم سوچتی تو ضرور ہو گی۔

تم سوچتی تو ضرور ہو گی کہ امن کے نعرے لگانے والے کہاں ہیں؟ بچوں کے اسکول کی حفاظت کرنے والے کہاں ہیں؟ دہشت کے جبر سے بچانے والے کہاں ہیں؟ صلح اور دوستی کے گیت گانے والے کہاں ہیں؟

ملالہ یوسفزئی! زخمی ذہن اور چور چور بدن میں جب ہوش لوٹ آئے، تو بیٹا! یاد رکھنا ہم سب تمہارے لیے دعا گو ہیں۔ ہم تمہاری حفاظت تو نہ کر سکے مگر دعاؤں پر ضرور ہمارا اختیارہے۔ بس میرے بچے اس بات پر یقین رکھنا ساری دُنیا ایسی نہیں ہے۔

یہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ان کی خوشیوں پر، کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں اور اس بات کو بھی یاد رکھنا، تم نے جو شمع جلائی ہے وہ آج اور منور ہو گئی ہے۔ تم اس حال میں بھی امن چاہنے والوں کے لیے اجالا ہو، روشنی ہو، زندگی ہو۔ تمھارے سب سوال درست ہیں۔

تمہاری ہر سوچ حق بجانب ہے۔ مسئلہ جواب کا ہے، جو ہم میں سے کسی کے پاس نہیں۔

روز روز بموں کی گھن گرج میں، ظالموں کے نرغے میں، خود کش بمباروں کے حصار میں گھرے، اس ملک کے بچے کیا سوچ رہے ہیں، کیا لکھ رہے ہیں، اس پر عاطف جاوید عاطف کی ایک پوری نظم ’بابا مجھ کو ڈر لگتا ہے‘ نقل کر رہا ہوں۔ اب مزید لکھنے کا یارا نہیں۔

بابا میری مس کہتی ہیں

کل سے سب بچوں کو اپنے

گھر رہنا ہے، گھر پڑھنا ہے

                        میں نے سنا ہے،

                        ایک بڑے سے کالی مونچھوں والے انکل

                        بومب لگا کر آئیں گے

                        سب بچے مر جائیں گے

بابا، کیوں ماریں گے ہم کو؟

ہم سے کوئی بھول ہوئی کیا؟

ہم سے کیوں ناراض ہیں انکل

                        بابا ان کو گڑیا دے دوں

                        یا پھر میرے رنگوں والی، یاد ہے نا وہ نیلی ڈبیا

                        میری پچھلی سالگرہ پر آپ نے مجھ کو لا کر دی تھی

                        اور میری وہ پیاری پونی، ریڈ کلر کی، تتلی والی

                        وہ بھی دے دوں؟

                        پھر تو نہیں ماریں گے مجھ کو

یاد ہے بابا، ایک دفعہ جب

مجھ کو ہاتھ پہ چوٹ لگی تھی

بہت زیادہ درد ہوا تھا

تھوڑا سا خون بھی نکلا تھا

بہت زیادہ روئی تھی میں

                        کیا یہ بم بڑا ہوتا ہے؟

                        بہت زیادہ چوٹ لگے گی؟

                        درد بھی شاید زیادہ ہو گا

                        بابا مجھ کو ڈر لگتا ہے!

                                                        عاطف جاوید عاطفؔ

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp