پانی لکڑی کو کیوں نہیں ڈبوتا؟

بدھ 11 اکتوبر 2023
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس زمانے کو یاد کریں جب حضرت ضیاالحق ’مرد مومن مرد حق‘ کے نعروں کی گونج میں افغانستان کے میدان جہاد میں داخل ہوئے۔ انہوں نے امریکی ڈالروں کی مدد سے روس کو شکست دینے کا سرمدی جذبہ جہاد عوام میں بیدار کیا۔ افغان مہاجرین کے لیے دل اور سرحد دونوں کے دروازے کھول دیے۔ ’انصار، مہاجر بھائی بھائی‘  کی مثالیں ’مرد مومن‘ کی تقاریر کا حصہ بن گئیں۔

پہلے امریکی امداد کو مونگ پھلی کہہ کر ٹھکرایا، پھر مہاجرین کی طرف ساری دنیا کی توجہ مبذول کروائی، دنیا بھر کے زعماء کو مہاجرکیمپوں کے دورے کرائے گئے، ساتھ ہی مہاجروں کی حالت زار پر پسیج جانے والی بین الاقوامی برادری کے سامنے کشکول دراز کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں ڈالر پیٹیوں میں نہیں کنٹینروں میں آتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ  ہم نے اپنے بچے بھی اس جہاد میں قربانی کے لیے تیار کیے، ان کے لیے ٹریننگ کیمپ ہم نے خود قائم کیے۔

افغان پناہ گزینوں کی نمائش ہم نے دس برس سے زیادہ عرصہ تک کی، بالکل اسی طرح جیسے یتیم خانے والے چند یتیموں کو دکھا کر صدقہ و خیرات کے لیے دست سوال دراز کرتے ہیں۔

ہم پر اس احسان عظیم کے بدلے میں ڈالروں کی بارش ہوتی رہی، ایسے ڈالر جن کا آڈٹ کسی نے کرایا نہ کسی مائی کے لعل میں اتنی ہمت تھی۔

افغانوں کو جب ہم کہتے ہیں کہ ہم تمہارے محسن ہیں، ہم نے تمہیں پناہ دی ہے، تمہارے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیئے تو تم احسان فراموشی نہ کرو، ہمارے اس احسان تلے تمام عمر دبے رہو۔

تم پر لازم ہے کہ اب ہمارے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھو، انہیں مار بھگاؤ، بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے تمہاری خاطر روس کو مار بھگایا تھا۔ ہم تو افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانا چاہتے تھے، تم کو گلے سے لگانا چاہتے تھے۔

جواب میں پناہ گزین کہتے ہیں کہ تم نے ہمیں پناہ دی تو اس کے بدلے میں ڈالر وصول کیے۔ ہم تمہارے مستقل روزگار کا بندوبست ہیں، ہمارے نام پرتم نے کمائی کی۔ ہمیں یتیم دکھا کر تم نے اپنے خزانے بھرے۔ ہماری کسمپرسی کو تم نے بازار میں مہنگے داموں فروخت کیا، ہماری مجبوریوں کی تم نے قیمت لگائی، ہماری مفلسی کو بھاری رقم کے عوض بیچا۔

تم ہمارے محسن نہیں، ہم تمہارے محسن ہیں۔ اگر ہم پر قیامت نہ ٹوٹتی تو تمہاری کمائی کیسے ہوتی؟ اگر ہماری جھونپڑیاں نہ گرتیں تو تمہارے محل کیسے تعمیر ہوتے؟ ہم غریب نہ ہوتے تو تمہارے چند لوگ کیسے امیر ہوتے؟ ہم محکوم نہ ہوتے تو تمہارا حکم کیسے چلتا؟

ستر کی دہائی کے اواخر میں شروع ہونے والی اس کہانی میں محبت کے پھول بھی تھے اور نفرت کی آگ بھی۔ کبھی ہم نے ان کے لیے پھول بچھائے کبھی انہوں نے ہمارے رستوں میں کانٹے بکھیرے۔ کبھی وہ  ہمارے اثاثے بنے، کبھی قابل نفرین کہلائے۔

کبھی انہیں بغیر کسی ویزے، کسی کاغذ کے ریاست میں داخل کرنا مبارک کام ٹھیرا تھا اور اب کاغذ کے بغیر رہنے والوں کو نکالنا صالح قدم قرار پایا۔

کبھی طالبان ہمارے دوست بنے، کبھی ہم نے ان کے خلاف آپریشن کیے۔ کبھی طالبان کی تقسیم کو ہم نے اپنی کمال منصوبہ سازی قرار دیا، اور پھر کبھی دونوں دھڑوں کو قابل تعزیر تصور کیا۔

ان لٹے پٹے لوگوں سے ہم نے بہت کھیل کھیلے۔ کبھی اسلحہ ہم نے انہیں دیا اور کبھی ان سے اسلحہ لینے کی مہم چلائی۔ کبھی صدیوں سے کھلی سرحد پر باڑ لگانے کے پیسے وصول کیے، کبھی بصد اصرار ان کے گھر اپنے دیار میں بنائے، ان کے دفاتر کھولنے کے منصوبے بنائے۔ یہ ابھی کل کی بات ہے جب عمران خان برسراقتدار تھے۔

خیر! یہ ریاست کے پرانے دور کی پالیسی تھی۔ ہماری تاریخ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ ماضی کی غلطیاں صرف سیاستدانوں کی معاف نہیں ہوتیں، ریاست ان سے چشم اغماض برتتی ہے۔ مگر آمروں کی غلطیاں معاف ہو جاتی ہیں البتہ سیاستدانوں کی غلطیوں پر پکڑ غضب کی ہوتی ہے۔

آج بھی ایسے پالیسی سازوں کی غلطیوں پر بات بھی نہیں ہو سکتی ہے، تعزیر تو بہت دور کی بات ہے۔

ریاست کا تازہ فرمان  یہ ہے کہ افغان حکومت اب دوست نہیں رہی، اثاثے بوجھ بن گئے ہیں۔ ایسے میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سب لوگ جو یہاں کبھی پناہ گزیں تھے، جن کے کاغذ بنے تھے نہ شناختی کارڈ اور اس پر ہمیں کبھی کوئی اعتراض نہیں رہا تھا، ان سب کو واپس بھیج دیا جائے۔

اس تناظر میں اے افغان استانیو! اب پاکستان میں بنے سکول میں آخری سبق پڑھا دو کیونکہ تمہارا اگلا ٹھکانہ وہ ملک ہے جہاں عورت کی تعلیم سب سے بڑا جرم ہے۔

اے افغان بچیو! اپنے سکولوں میں بجنے والی آخری گھنٹیاں سن لو کیونکہ اب تمہارا ٹھکانہ وہ ملک ہے جہاں تمہیں گھروں میں مستقل قید رہنا ہے۔

اے افغان گلوکارو! موسیقارو! اور سازندو!! اپنے اپنے ساز پر آخری ٹھیکہ لگا لو کیونکہ اب تمہیں ایک ایسے دیس جانا ہے جہاں موسیقی جرم ہے حتیٰ کہ جہاں سروں کی بات کرنا قابل تعزیر ہے۔

اگرچہ ریاست پاکستان  نے بڑے جوش و جذبے سے ان لوگوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کیا ہے جن کی کوئی شناخت نہیں لیکن جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا، یہ پالیسی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے گی۔

سبب یہ نہیں ہے کہ ریاست کے پاس اہلیت نہیں ہے بلکہ سبب یہ ہے کہ ریاست کے دل آج بھی ان کے لیے کہیں نہ کہیں موم کی طرح پگھل جاتے ہیں۔

عرفی کے ایک شعر پر بات ختم کرتے ہیں

چوب را آب فرومی نبرد سرش چیست؟

شرمش آید ز  فرو بردن پروردہ خویش

(پانی لکڑی کو کیوں نہیں  ڈبوتا؟ پانی کو شرم لاحق ہے کہ جسے میں نے خود پالا اسے کیسے ڈبو دوں )

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp