نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر دیا گیا، فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمارا موقف کو سنے بغیر نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔
ایڈوکیٹ فاروق ایچ نائیک نے عبد الجبار کی طرف سے نیب ترامیم فیصلہ چیلنج کیا۔ درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیر نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ دیا اور نیب ترامیم کے بعد احتساب عدالت نے میرے خلاف ریفرنس اینٹی کرپشن عدالت کو بھجوا دیا۔
نیب ترامیم کے خلاف درخواست میں کسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی جبکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئینی و قانونی تقاضے پورے نہیں کرتی تھی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ نیب ترامیم کے خلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
مزید پڑھیں
نیب ترامیم کو کیوں کالعدم قرار دیا گیا؟
2022 میں 14 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب بناتے ہوئے اپنی حکومت قائم کی، شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس دوران پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں نے نیب ترامیم سے متعلق بل پارلیمنٹ سے منظور کرا دیا۔
نیب ترامیم سے متعلق بل منظور ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں اس بل کے خلاف ایک درخواست دائر کی۔ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے، کیس پر سماعت شروع کر دی۔
تاہم سپریم کورٹ کی کارروائی چلتی رہی اور بالآخر 53 سماعتوں کے بعد 15 ستمبر کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنا دیا۔ 2 ایک کی اکثریت سے جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عوامی عہدہ رکھنے والے افراد کے نیب میں موجود تمام مقدمات کو بھی دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ کے 2 ججز کے اکثریتی فیصلے کے مقابلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم پر فیصلہ سناتے ہوئے 10 میں سے 9 شقوں کو اڑا دیا، فیصلے کے مطابق نیب ترامیم میں ایک کے سوا تمام شقیں کالعدم قرار دی گئیں، سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق کو برقرار رکھا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں احتساب عدالتوں کی جانب سے ختم کیے جانے اور منتقل کیے جانے والے تمام مقدمات بحال ہوگئے، نیب ترامیم کالعدم ہونے سے شہباز شریف، آصف زرداری، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی کے مقدمات بھی بحال ہوگئے۔
واضح رہے نیب کے پرانے قانون کے مطابق نیب مقدمے میں گرفتار ملزم کی ضمانت ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ دے سکتا تھا جبکہ ترمیمی قانون میں یہ اختیار احتساب عدالت کو دے دیا گیا تھا۔