سپریم کورٹ: اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور، معلومات کی فراہمی کا حکم  

پیر 16 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے معلومات تک رسائی کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا، تاہم آرٹیکل 19 اے کے تحت درخواست گزار کو معلومات فراہم کی جائیں۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا تاہم آرٹیکل 19-A کے تحت درخواست گزار کو معلومات فراہم کی جائیں۔

واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی جبکہ 19 اے معلومات تک رسائی سے متعلق ہے۔ جبکہ درخواست گزار نے معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا تاہم آرٹیکل 19 اے کے تحت درخواست گزار کو 7 روز میں معلومات دی جائیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کے لیے درخواست گزار نے جو فیس جمع کرا رکھی ہے وہ اسے واپس کی جائے۔ اور سپریم کورٹ میں جو فیس جمع کرائی ہے وہ بھی واپس کی جائے۔ تفصیلی فیصلہ تھوڑی دیر میں جاری کیا جائے گا جس میں مکمل وجوہات شامل کی جائیں گے۔

تاہم عدالت نے ہدایت کی ہے کہ معلومات کے حصول کے لیے درخواست گزار کو تفصیلی وجوہات فراہم کرنا ہوں گی اور معلومات دینے والا وجوہات کا جائزہ لینے کا پابند ہو گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ بھی متفقہ فیصلے کا حصہ  بنایا گیا ہے، فیصلے کو اردو میں بھی جاری کیا جائے گا۔

درخواست گزار مختار احمد نے سپریم کورٹ ملازمین کے بارے میں معلومات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ مختار احمد نے سپریم کورٹ ملازمین کی تعداد، خالی آسامیوں، سپریم کورٹ میں مرد، خواتین اور ٹرانس جینڈر کی معلومات کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی۔

درخواست گزار نے پہلے معلومات کے لیے انفارمیشن کمیشن سے رابطہ کیا جس نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو معلومات کی فراہمی کا حکم دیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس نے درخواست مسترد کر دی تھی جس فیصلے کے خلاف درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

گزشتہ سماعت پر عدالت کو بتایا گیا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں وکیل مقرر کیا تھا۔ جس پر سوال اٹھا کہ کیا سپریم کورٹ کسی مقدمے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتی ہے اور کیا رجسٹرار سپریم کورٹ نے انفرادی حیثیت میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کیا یا سپریم کورٹ کی طرف سے۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں ہمارے پاس 2 ٹرانس جینڈر کام کرتے ہیں اور وہ اپنی معلومات افشا نہیں کرنا چاہتے تو ہم کیسے ان کی معلومات عام کر سکتے ہیں۔

تحریری فیصلہ

سپریم کورٹ نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ملازمین کی معلومات کی فراہمی سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 10 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں رجسڑار سپریم کورٹ سے 8 مختلف معلومات حاصل کرنے کے لیے درخواست دی گئی 100  سے زائد ممالک میں معلومات تک رسائی کے حوالے سے قوانین ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حوالے سے معلومات تک رسائی کا نہ قانون ہے نہ رولز، معلومات تک رسائی کو آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تناظر سے دیکھا جائے گا، جو معلومات تک رسائی کو مناسب پابندیوں کا تصور دیتا ہے، معلومات تک رسائی سے انکار پر ادارہ، شخص یا اتھارٹی کی جانب سے مناسب وجہ پر ہونا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امریکی عدالت نے معلومات تک رسائی کو جمہوریت ،احتساب اور کرپشن سے تحفظ کے مطابق قرار دیا ہے، حضرت عمر سے کپڑوں کے بارے پوچھنے پر اعتراض نہیں کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق موجودہ کیس میں سپریم کورٹ سے معلومات فراہم نہ  کرنے کی وجہ نہیں، نتیجتاً درخواست گزار کو معلومات فراہم کی جانی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp