روس کے صدر ولادیمیر پوٹن دورہ چین پر بیجنگ پہنچ گئے ہیں۔ جہاں چینی قیادت کی جانب سے روسی صدر کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ روسی صدر کل (بدھ) اپنے ہم منصب اور ’پیارے دوست‘ شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے فورم کے سربراہی اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ پیوٹن تیسری بار چین کے بیلٹ اینڈ روڈ سمٹ میں شرکت کر رہے ہیں، انہوں نے 2017 اور 2019 میں بھی 2 اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔ روس اور چین کے سربراہان کی ملاقات ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سفارتی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
منگل کو روسی صدر کی روانگی سے قبل کریملن سے جاری بیان کے مطابق دونوں صدور کے درمیان مذاکرات کے دوران بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ پوٹن چین کے ساتھ پہلے سے مضبوط رشتے کو مزید مضبوط کرنے کے مشن پر ہیں۔ چین روس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جن کے درمیان تجارت گزشتہ سال ریکارڈ 190 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔
خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے ’پیارے دوست‘ پوٹن کو چین کے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو فورم میں مدعو کیا ہے جہاں 130 ممالک کے رہنما شی جن پنگ کے دستخط شدہ بین الاقوامی منصوبوں میں سے ایک پر تبادلہ خیال کریں گے۔ لیکن امکان ہے کہ اس اجلاس کا موضوع اسرائیل حماس جنگ کے ساتھ ساتھ یوکرین پر روس کے جاری حملے کی زد میں آ جائے گا۔
مزید پڑھیں
مارچ 2023 میں ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے روسی صدر پر یوکرین سے بچوں کو غیرقانونی طور پر ملک بدر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انکے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، اس کے بعد چین ان پہلے ممالک میں سے ایک ہے جہاں پوٹن نے دورہ کیا ہے۔
چین ان 123 ممالک میں شامل نہیں ہے جو آئی سی سی کے رکن ہیں لہٰذا وہ پوٹن کو ٹرائل کے لیے دی ہیگ منتقل کرنے کا پابند نہیں ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں پوٹن نے کرغزستان کا دورہ بھی کیا تھا لیکن سابق سوویت جمہوریہ ممالک سے باہر چین پہلا ملک ہے جس کا انہوں نے دورہ کیا ہے۔ کرغزستان بھی آئی سی سی کا رکن نہیں ہے۔
بیجنگ نے یوکرین میں جنگ جاری رہنے کے باوجود ماسکو کے ساتھ اپنی شراکت داری پر مغربی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ ان کے تعلقات بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں اور چین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس بھی ملک سے چاہے تعاون کرے۔
فروری 2022 میں ماسکو کی جانب سے یوکرین پر مکمل حملے کے آغاز کے بعد سے چین اور روس کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور دیگر ممالک کی جانب سے روسی درآمدات پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد بیجنگ روسی تیل درآمد کر رہا ہے۔
رواں ہفتے اپنے دورے سے قبل چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کو دیے گئے انٹرویو میں پوٹن نے کہا تھا کہ ’کثیر قطبی دنیا تشکیل پا رہی ہے اور صدر شی جن پنگ کی جانب سے پیش کردہ تصورات اور اقدامات انتہائی متعلقہ اور اہم ہیں۔‘
روس کے اعلیٰ سفارت کار سرگئی لاوروف، پیوٹن سے پہلے بیجنگ پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے سوموار کو چین کے وزیرخارجہ وانگ یی سے ملاقات کی تھی۔
پوٹن نے گزشتہ ماہ روس میں دونوں صدور کی ملاقات کے بعد کم جونگ ان کی جانب سے شمالی کوریا کا دورہ کرنے کی دعوت بھی قبول کر لی تھی۔ روس کی وزارت خارجہ پہلے ہی تصدیق کرچکی ہے کہ لاوروف بیجنگ چھوڑنے کے بعد پیانگ یانگ کا دورہ کریں گے۔