سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے پیر کو اڈیالہ جیل میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ٹرائل کا باقاعدہ کا آغاز کر دیا۔
عدالت کی جانب سے ملزمان کو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی اور آئندہ سماعت پر گواہان کو طلب کر لیا گیا ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر الزامات کیا ہیں؟
سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف چارج شیٹ کے مطابق دونوں کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 اور 9 کے تحت ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
کیس کی چارج شیٹ میں الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بطور وزیراعظم غیر قانونی طور پر سائفر اپنے پاس رکھا۔ عمران خان نے سیکرٹ دستاویز کو ممنوع مقام (جلسے میں) غلط طریقہ کار سے استعمال کیا۔ سائفر کی خفیہ معلومات کو غیر ضروری افراد تک پہنچایا۔
مزید پڑھیں
چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ریاست کے مفاد کے خلاف معلومات استعمال کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ وزارت خارجہ نے اعتماد کرتے ہوئے سائفر سابق وزیراعظم عمران خان کو فراہم کیا۔ مگر انہوں نے سائفر اپنے پاس رکھتے ہوئے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس عمل سے ملک کے سیکیورٹی سسٹم پر کمپرومائز کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے اس عمل سے ریاستِ پاکستان کی سلامتی متاثر ہوئی۔
چارج شیٹ کے مطابق 28 مارچ 2022 کو بنی گالا اجلاس میں ملزم شاہ محمود قریشی کے ہمراہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سائفر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ سابق وزیراعظم نے بدنیتی کی بنیاد پر سائفر اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔ غیر مجاز ہونے کے باوجود سائفر غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔
سائفرکیس میں شاہ محمود قریشی کی چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر خارجہ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے جرم میں معاونت کی، جس طرح عمران خان نے جرم کیا، شاہ محمود قریشی بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔
عمران خان کو 2 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، عمران شفیق
سینیئر قانون دان اور سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور سیکشن 9 کے تحت سزا 14 سال تک قید یا سزائے موت تک کی ہے تاہم عمران خان پرجو جرم ثابت ہوتا ہے اس کی سزا پاکستان کے قانون کے مطابق 2 سال تک ہی ہوسکتی ہے۔
عمران شفیق کے مطابق 14 سال قید یا سزائے موت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تب بنتی ہے جب سائفر کا کوڈ کسی کو فراہم کیا گیا ہو جبکہ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سائفر کا متن جلسے میں بتایا اور سائفر کو چھپایا گیا ہے۔
عمران شفیق کے مطابق اس چیز کا ثبوت موجود نہیں کہ عمران خان نے کسی کو سائفر کا کوڈ بتایا ہے، ’صرف سائفر کا متن وہ بھی سچ اور جھوٹ کا ملغوبہ ہے اس لیے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ان کو 2 سال تک سزا ہوسکتی ہے‘۔
سائفر کو چھپانے سے متعلق جرم پر عمران شفیق کہتے ہیں کہ سائفر چھپانے کا الزام تب ثابت کیا جاسکتا ہے جب سائفر کہیں سے برآمد کیا جائے یا پھر یہ ثابت کیا جائے کہ عمران خان نے سائفر کسی دشمن ملک کو دیا ہے۔
عمران شفیق نے کہا کہ وزیراعظم آفس کے ڈاکومنٹس کے کسٹوڈین یا تو ملٹری سیکریٹری ہیں یا پھر وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری، یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ اس دستاویز کے کسٹوڈین میں عمران خان بھی شامل تھے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 5 اور سیکشن 9 کیا کہتا ہے؟
قانون دان زینب جنجوعہ کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 5 متختلف جرائم سے متعلق ہے جس میں معلومات کی ممنوعہ افراد تک رسائی شامل ہے۔ سیکشن 5 کے تحت کسی بھی خفیہ معلومات یا دستاویز وغیرہ کا کسی غیر مجاز شخص کو جان بوجھ کر پہنچانا جرم ہے۔ سیکشن 5(3) کے مطابق کوئی بھی شخص جو سیکشن 5 اے کے تحت کسی جرم کا مرتکب پایا جاتا ہے اسے سزائے موت کے علاوہ 14 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے جبکہ اس کے علاوہ کسی بھی سیکشن کے تحت جرم کرنے پر سزا 2 سال کی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 9 جرم کی معاونت کرنے سے متعلق ہے اور کوئی بھی شخص جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے میں معاونت کرے وہ بھی اسی سزا کا ذمہ دار ہوگا جو کہ جرم کی سزا ہوگی۔