سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کر کے جیل منتقل کیے 80 روز ہو چکے ہیں۔
اس عرصے کے دوران محض موسم، خوراک اور پہناوے ہی نہیں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
لاہور کی رہائش گاہ سے اٹک جیل پہنچائے گئے عمران خان اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ جہاں وہ ریاستی تحائف غیرقانونی طور پر فروخت کرنے کی پاداش میں عدالت سے 3 برس کی سزا کے بجائے اس وقت ’سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ‘ کی وجہ سے قید ہیں۔
پانچ اگست کو اسلام آباد کی عدالت نے سزا سنانے کے بعد عمران خان کے وارنٹ جاری کیے، اس کے فورا بعد تقریبا 400 کلومیٹر دور واقع لاہور سے پنجاب پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔
عدالت کی جانب سے عمران خان کی عدم موجودگی میں سنائی گئی سزا میں ان کے سیاست میں حصہ لینے پر بھی 5 برس کی پابندی عائد کی گئی۔
عمران خان کی گرفتاری کا سبب بننے والا مقدمہ کیا تھا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عمران خان نے 2018 سے 2022 میں اپنی وزارت عظمی کے دوران اختیار کا غلط استعمال کیا اور غیرقانونی طور پر ریاستی سطح پر ملنے والے 14 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے تحائف کی خریدوفروخت کی۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ 30 صفحات پر مشتمل فیصلے میں انہیں ’غیرقانونی عمل میں ملوث، کرپشن، اثاثے چھپانے اور ٹیکس ریٹرن میں غلط معلومات دینے اور بددیانتی‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
توشہ خانہ یا ’اثاثے چھپانے‘ کے کیس سے معروف ہونے والے مقدمہ میں 6 رولیکس سمیت 7 گھڑیوں کی مبینہ فروخت کا ذکر تھا۔ ان میں سب مہنگی گھڑی کی مالیت لاکھوں ڈالر بتائی گئی تھی۔
جواب میں عمران خان نے موقف اپنایا تھا کہ سرکاری توشہ خانہ سے تحائف قیمتا خریدے گئے تھے، اس میں کچھ غلط نہ تھا۔
عمران خان کی دوسری مرتبہ گرفتاری پر گزشتہ مئی میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری جیسا پرتشدد احتجاج کا ماحول نہیں بنا تھا۔
گرفتاری کے بعد ان کا پہلے سے ریکارڈ کردہ ویڈیو پیغام نشر کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے پرامن احتجاج کا مطالبہ کیا تھا۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد گرفتاری کے مرحلہ تک عمران خان کے خلاف کرپشن، دہشت گردی اور لوگوں کو 9 مئی کے پرتشدد احتجاج پر اکسانے جیسے الزامات کے تحت 150 سے زائد مقدمات بنے۔
عمران خان نے اپنی گرفتاری کو آئندہ الیکشن میں شرکت سے روکنے کی کوشش کہا تاہم اس وقت کی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے ان الزامات کو بےبنیاد قرار دیا تھا۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے خلاف عائد الزامات کے معاملے میں دفاع کا پورا موقع دیا گیا لیکن وہ ’عدالتی کارروائی کو ٹالنے کے لیے سے دوسری عدالت پہنچتے رہے۔‘
جیل میں عمران خان کس حال میں ہیں؟
70 برس سے زائد عمر کے عمران خان 26 ستمبر کو 3 ہفتوں سے زائد کا وقت اٹک جیل میں گزارنے کے بعد راولپنڈی جیل منتقل کیے گئے۔
یہ پیشرفت اس وقت ہوئی تھی جب 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ’عمران خان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم‘ دیا تھا۔ عدالت نے توشہ خانہ کیس میں ان کی تین برس کی سزا معطل کر دی تھی۔
عدالتی حکم کے باوجود عمران خان جیل سے رہا نہیں کیے گئے کیونکہ وہ سفارتی دستاویز افشا کرنے کے الزام سے متعلق ’سائفر کیس‘ میں زیر تفتیش ہیں۔ یہ مقدمہ ان بیانات اور سفارتی خط سے متعلق ہے کہ جو عمران خان کے بقول انہیں حکومت سے ہٹانے میں مبینہ امریکی سازش کا ثبوت ہے۔
اس سے قبل 24 اگست کو انسداد دہشت گردی عدالت نے فوجی تنصیبات پر حملوں کے کیس میں پولیس کو اجازت دی تھی کہ وہ سابق وزیراعظم سے تفتیش اور انہیں گرفتار کر سکتے ہیں۔
جیل کے ابتدائی ایام میں برطانیہ میں مقیم بیٹوں سے رابطہ نہ ہونے، خوراک کے معیار اور دیگر مسائل کی شکایت کرنے والے عمران خان اب اپنے بیٹوں سے فون پر بات بھی کرتے ہیں۔ انہیں چند روز قبل جیل میں ایکسرسائز کے لیے خصوصی سائیکل بھی فراہم کی گئی ہے۔ اسی دوران عدالت میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق انہیں خواہش کے مطابق پسندیدہ کھانے بھی مہیا کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب ان کی قانونی ٹیم کا دعوی ہے کہ ’جیل میں عمران خان کو ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘