مشرق وسطیٰ میں امن کی صورت حال مزید بگڑنے لگی، اسرائیل کا ترکیہ سے سفارتی مشن واپس بلانے کا اعلان

اتوار 29 اکتوبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے نتیجے میں ہر دن غزہ کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جبکہ اسرائیل نے جنگ بندی کی تمام سفارتی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے غزہ پر زمینی اور فضائی حملوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

سفارتی کوششوں کے دوران ہی اسرائیل اور ترکیہ کے درمیان تعلقات بھی منقطع ہو گئے ہیں، اسرائیل نے ترکیہ سے اپنے سفارتی مشن کو واپس بلا لیا ہے جب کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے حماس کو آزادی پسند گروپ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو جنگی مجرم ٹھہرانے کا اعلان کیا ہے۔

ادھر ترکیہ اور جرمنی سمیت غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام پر دُنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

حماس پر مزید دباؤ، یرغمالیوں کی واپسی کے زیادہ امکانات: اسرائیلی وزیر دفاع

اسرائیل کے وزیر دفاع گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس پر جتنا زیادہ دباؤ ڈالا جائے گا، قیدیوں کی واپسی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔

’ایسا لگتا ہے کہ اس بیان کا مقصد اس تنقید کا جواب دینا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی زمینی کارروائیوں سے قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات متاثر ہوں گے‘۔

متعدد مغربی ممالک اور یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ نے مبینہ طور پر اسرائیل پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ غزہ میں زمینی حملے میں تاخیر کرے تاکہ مزید قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکے۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ  طویل اور مشکل  ہوگی اور وہ یرغمالیوں کو بحفاظت وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو مواصلاتی بندش، ہراسانی اور حملوں کا سامنا

غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے کے آغاز کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اسرائیلی افواج کے کریک ڈاؤن میں مغربی کنارے میں اب تک کم از کم 105 فلسطینی شہید اور 1550 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اسرائیلی پاپندیوں اور آباد کاروں کے حملوں کے خطرے کے باعث فلسطینی شہروں اور دیہات کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں تقریباً مکمل طور پر تجارتی تعطل اور نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔

حماس کی فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنا اور یرغمالیوں کو وطن واپس لانا جنگ کا مقصد ہے،  نیتن یاہو

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ میں جاری زمینی آپریشن جنگ کا دوسرا مرحلہ ہے، اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام لگانے والے منافق ہیں۔

تل ابیب میں ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا، ’اس جنگ کا مقصد (حماس کی) فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنا اور اغوا کیے گئے افراد کو واپس لانا ہے۔

اومان کی اسرائیلی جارحیت کی مذمت

اومان طویل عرصے سے ایران اور مغرب کے درمیان ایک اہم ثالث کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ غزہ کی صورت حال پر اومان کی وزارت خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی زمینی حملے کے خطے اور دنیا پر سنگین تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

بیان میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی جنگ کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کرے اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں تیزی لائے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کا محاصرہ اور بمباری جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔

اسرائیلی افواج کی غزہ پر بمباری میں اضافہ، مکینوں میں مایوسی پھیلنے لگی

عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی حملوں کا سلسلہ علاقے میں مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ایک گھنٹے کے دوران غزہ پٹی کے مختلف علاقوں پر اسرائیلی فضائی حملوں کی بمباری کی گئی۔

اس میں غزہ کے جنوب میں ضلع رفح میں ایک رہائشی مکان بھی شامل ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں پر مشتمل اس شہر پر گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران بڑے پیمانے پر بمباری کی گئی ہے۔

فلسطینیوں کی اکثریت نے غزہ کے جنوب میں منتقل ہونے کے لئے اسرائیلی قابض افواج کے احکامات پر عمل کیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں نے جو غزہ کی پٹی کے شمالی اور وسطی علاقوں میں مقیم ہیں۔

تاہم، جنوبی علاقوں میں زمینی صورتحال کو واقعی تباہ کن سمجھا جاتا ہے اس لیے یہاں کے لوگ مایوس ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وہ وقت اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔

برلن میں فلسطین کے حق میں ریلی نکالی گئی

جرمن دارالحکومت برلن میں فلسطینیوں کی حمایت اور غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خاتمے کے لیے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

ریلی میں موجود مظاہرین نے اسرائیل پر ‘نسل کشی’ کا الزام عائد کیا جبکہ دیگر نے جرمن حکومت کی جانب سے اسرائیل کی حمایت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

 مظاہرے کے دوران لوگوں کو ویوا، ویوا فلسطین اور آزاد فلسطین کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق اس تقریب کا اہتمام گلوبل ساؤتھ یونائیٹڈ نے کیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کا غزہ پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

ادھر متحدہ عرب امارات نے غزہ میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی زمینی دراندازی کے جواب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے جلد از جلد اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے سفارت کاروں نے میڈیا کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات بھی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی بندش پر خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

اس میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لازارینی سے بھی بریفنگ طلب کی گئی ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ 15 رکنی سلامتی کونسل کا اجلاس اتوار کو ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ پر زمینی کارروائیوں کی ویڈیوز جاری

اسرائیلی فوج نے غزہ پر زمینی کارروائیوں کے دوران کی ویڈیو بھی جاری کی ہے، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فورسز حماس کے ٹینک شکن ٹھکانوں اور عمارتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘گزشتہ رات سے اسرائیلی فوج بکتر بند، انجینئرنگ اور انفنٹری فورسز کی مشترکہ لڑاکا ٹیموں کی قیادت میں شمالی غزہ کی پٹی میں زمینی حملے کر رہی ہے۔’

یہ اعلان فلسطینی علاقے میں داخل ہونے کے 24 گھنٹے بعد سامنے آیا ہے جب فوج نے حماس کے خلاف اپنی جنگ میں توسیع کی ہے۔

ہلال احمر کا اپنی ٹیموں سے رابطہ منقطع

فلسطینی ہلال احمر کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی ٹیموں بشمول طبی عملے اور اسپتالوں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ اسرائیل نے یہاں پر انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی نظام کو منقطع کر دیا ہے۔

غزہ سٹی میں فلسطینی ہلال احمر کی ترجمان نیبل فرسخ نے کہا کہ ہم اپنی ٹیموں کی حفاظت کے بارے میں انتہائی فکرمند ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مواصلات کی کمی کا مطلب ہے کہ 20 لاکھ سے زیادہ افراد ایمبولینس خدمات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اس میں زخمی، دائمی بیماری میں مبتلا افراد اور حاملہ خواتین شامل ہیں۔

غزہ جنگ کے خلاف اسرائیل میں مظاہرے

غزہ میں جاری لڑائی کے خلاف تل ابیب میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لیے معاہدے پر بات چیت کا مطالبہ کیا گیا۔

انتونیو گوتریس کی قطر میں مصری رہنما سے ملاقات

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے قطر کے دورے کے دوران مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی ملاقات کی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم ہر اس شخص سے رابطہ کریں جو کسی بھی فریق کے ساتھ اثر و رسوخ رکھتے ہیں، چاہے وہ اسرائیلی ہوں یا حماس کے ساتھ تاکہ اس وقت ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اسے ختم کیا جاسکے۔

جب ان سے انتونیو گوتریس پر اسرائیل کی تنقید کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ صورتحال کو بہتر بنانے پر ہے۔  ہم اسرائیلیوں اور خطے میں ہر اس شخص کے ساتھ ہر سطح پر اپنے رابطے جاری رکھیں گے جو صورتحال میں مدد کرسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گوتریس قیدیوں کی رہائی، غزہ تک بلا روک ٹوک انسانی رسائی اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔

قبل ازیں السیسی نے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انتباہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ خطہ ٹائم بم بن جائے گا جو ہم سب کو متاثر کرے گا۔’

ہماری افواج جنگ کے  اگلے مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہیں، اسرائیل

ادھر اسرائیل نے کہا ہے کہ ہماری افواج جنگ کے مراحل ہیں اور آج ہم اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ چیف آف جنرل اسٹاف ہرزی حلوی نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک پیغام میں کہا کہ ہماری افواج اس وقت غزہ کی پٹی میں زمینی سطح پر کارروائیاں کر رہی ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ جمعے کی رات بھیجے گئے فوجی اب بھی میدان میں موجود ہیں جبکہ اس سے قبل اس نے صرف مختصر پروازیں کی تھیں۔

اس سے قبل ہم نے بتایا تھا کہ اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے بھی جنگ کے ایک نئے مرحلے کا اعتراف کیا ہے۔ ہم نے فضائی اور زمینی حملے کیے ہیں۔

اگرچہ ابھی تک مکمل زمینی حملے کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے ، لیکن اسرائیل لاکھوں لوگوں کو غزہ کے شمال سے دور جانے کے لیے کہہ رہا ہے۔

اسرائیل کو غزہ سے گزرنا پڑے گا، تجزیہ کار

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکا میں قائم اٹلانٹک کونسل کے سینئر مشیر ہارلان اولمین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا اختتام ہے جو ممکنہ طور پر کسی ‘اچھے نتائج’ کے بغیر ‘تباہی’ کا باعث بن سکتا ہے۔

اولمان نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جب ایک بار جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس سے نکلنے کا فوری کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

انہوں نے کہا کہ اب شاید اور مجھے امید ہے کہ امریکا، مصر، اردن، سعودی عرب اور قطر کے ساتھ کسی قسم کی سفارتی پہل کر کے ایسا کر رہا ہے، شاید ابتدائی زمینی حملوں کے بعد کسی قسم کی جنگ بندی ہو سکتی ہے۔

لیکن اس کے بغیر صورتحال مزید خراب ہونے والی ہے کیونکہ اسرائیل کو حماس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غزہ کے راستے جانا ہوگا اور غزہ والوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اگر اسرائیل یرغمالیوں کا بحران حل کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں، حماس

ادھر القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں اور گولہ باری کے نتیجے میں 50 قیدی ہلاک ہوئے ہیں۔

غزہ میں تمام قیدیوں کی واپسی کی قیمت اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے ، ایک اندازے کے مطابق تقریباً 6،600 فلسطینی اس وقت اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر دشمن اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں۔ اگر دشمن قیدیوں کی اس فائل کو ایک ہی وقت میں بند کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ اگر وہ قدم بہ قدم ایسا کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق حماس نے غزہ کی پٹی میں 229 یرغمالی وں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔

ادھر روس میں موجود حماس کے نمائندے ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے غزہ میں حماس کی قید میں تمام افراد کو اسرائیلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یرغمالیوں کے پاس اسرائیل کے علاوہ بھی اگر کسی ریاست کا پاسپورٹ یا شہریت ہے تو وہ اسرائیلی ہی ہے۔حماس کا غزہ میں قید افراد کے بار میں دوٹوک مؤقف روسی میڈیا کے ذریعے سامنے آیا ہے۔

حماس نمائندے کے مطابق چونکہ یہ سب( مغویان)اول و آخر اسرائیلی شہری ہیں اس لیے انہیں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جاری بمباری کی موجودگی میں کسی صورت رہائی نہیں دی جا سکتی۔ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق اس سے قبل روس کے انتہائی اہمیت کے حامل اپنے دورے کے دوران روس اور ایران کے نائب وزرائے خارجہ کے ساتھ بھی الگ الگ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

یقیناً ان ملاقاتوں میں مشرق وسطیٰ کا مستقبل اور اسرائیل حماس جنگ اور غزہ کی موجودہ صورت حال ہی اہم موضوعات تھے۔روسی میڈیا کے مطابق روس میں حماس کے نمائندے کے طور پر آنے والے حماس کے پولٹ بیورو کے رکن ابو مرزوق نے کہا کہ امریکا، فرانس، اٹلی، سپین سمیت کئی ملکوں نے ان سے رابطہ کیا ہے کہ ان کے شہریوں کو غزہ سے رہا کر دیا جائے۔

یورپی یونین کا مشرقِ وسطیٰ میں سپین کی امن کانفرنس کی تجویز سے اتفاق

یورپی یونین نے مشرق وسطیٰ میں سپین کی امن کانفرنس کی تجویز پر اتفاق کر لیا ہے ۔سعودی خبررساں ادارے کےمطابق مجوزہ کانفرنس 6ماہ تک اسرائیل اور حماس کے درمیان تصادم روکنے کےلیے ہو گی۔

سپین کے قائم مقام وزیر اعظم پیدروسینچیزنےبتایا کہ یورپی یونین کےاجلاس میں سپین نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرے تاکہاموات میں اضافے کو روکا جا سکے۔

تاہم کئی یورپی ممالک نے اس مطالبے کی مخالفت کی ہے ، جس کی وجہ سے یورپی یونین کی جانب سے متفقہ طور پر فوری جنگ بندی کا مطالبہ سامنے نہیں آ سکا۔پیدروسینچیز نے کہا اس کے باجود یورپی یونین کے ممبران نے جنگ میں وقفہ کرنے ،

غزہ کے لیے امداد بھجوانےکے لیے راہداری کھولنے پر اتفاق کیا ہے ۔انہوں نے کہا اس سلسلے میں یورپی یونین کے ممبران نے متبادل تجویز کے طور پر میڈرڈ امن کانفرنس کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ یہ مجوزہ کانفرنس مسئلے کے لیے دو ریاستی حل کی طرف ایک نیا قدم ہوگا۔

اسرائیل نے ترکیہ سے سفارت کاروں کو واپس بلا لیا

ادھر سفارتی سطح پر بھی اسرائیل نے تمام ممالک کے ساتھ جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اعلان کیا کہ ترکیہ میں موجود سفارتکاروں کو واپس جانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اسرائیل اور ترکی کے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے سکے۔

یہ حکم ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب ترکی میں فلسطین کے حق میں مظاہرے جاری ہیں اور صدر رجب طیب اردوان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل ان کا ملک اسرائیل کو ‘جنگی مجرم’ قرار دینے کی تیاری کر رہا ہے۔

ترک رہنما نے یہ بھی کہا ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، یہ ایک آزادی پسند گروپ ہے، جبکہ انہوں نے مغرب کو غزہ میں شہریوں کے قتل کا اصل مجرم  قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بلند آواز میں اعلان کریں گے کہ ہم اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ اسرائیل غزہ پر مسلسل حملے کرکے اپنے پاگل پن کا مظاہرہ کررہاہے اور اسرائیلی جارحیت کھل کر سب کے سامنے آگئی ہے۔

ان بیانات نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کر دیا ہے، جو حالیہ برسوں میں سرد مہری کا شکار ہوئے تھے۔

اب تک 110 ڈاکٹروں سمیت دیگر طبی عملہ شہید ہو چکا ہے، وزارت صحت غزہ

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ کی پٹی میں اسرائیلی گولہ باری اور فضائی حملوں میں 110 ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے دیگر افراد بھی شہید ہو چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp