یہ بالکل ایسا ہی منظر تھا جیسا اسکول میں ٹیچر نے ٹیسٹ لینا ہو اور آدھی سے زیادہ کلاس کی تیاری نہ ہو تو پھر ٹیچر کی ڈانٹ ڈپٹ ساری کلاس سر جھکائے سنا کرتی۔ لیکن چیئرمین پیمرا کے لیے تو آج سپریم کورٹ میں پیشی بہت گراں بار ثابت ہوئی، اس سے پہلے کہ میں اس موضوع کا احاطہ کروں قارئین کی دلچسپی کے لیے کچھ ذکر ہو جائے۔
سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل محمد ضیاالحق جنہیں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے صدر پاکستان ماننے سے انکار کر دیا۔
دراصل ہوا کچھ یوں کہ 2017 میں فیض آباد انٹرچینج کو مسدود کر کے جب تحریک لبیک پاکستان نے جڑواں شہروں کے مقام اتصال کو بند کر دیا تو اس وقت سپریم کورٹ نے اس دھرنے کے حوالے سے ایک ازخود نوٹس لیا، جس کا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا تھا۔ اس فیصلے میں انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کی رپورٹ کے تناظر میں لکھا گیا کہ کچھ سیاستدان بھی دھرنے کی حمایت میں متحرک تھے جن میں سے ایک نام جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کا بھی تھا۔
مزید پڑھیں
اعجاز الحق نے اس فیصلے میں اپنے خلاف اس آبزرویشن کو حذف کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی جس کی 4 سال کے بعد پہلی سماعت گزشتہ ماہ جبکہ دوسری آج کے روز ہوئی۔
آج کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کے والد آرمی چیف تھے، جس پر انہوں نے کہاکہ وہ نا صرف آرمی چیف بلکہ صدر پاکستان بھی تھے۔
ضیاالحق کو صدر پاکستان نہیں مانتا، چیف جسٹس پاکستان
اس پر چیف جسٹس نے برملا کہا کہ ’میں ان کو صدر پاکستان نہیں مانتا‘ اس پر اعجازالحق کے وکیل نے کہا ان کا نام آئین پاکستان میں لکھا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ واحد آدمی ہے جس کا نام آئین میں لکھا ہے۔ وہیں چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک سابق آرمی چیف کا بیٹا کہہ رہا ہے کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی، اعجاز الحق کی نظرثانی درخواست میں یہی لکھا ہے.
بعد ازاں سپریم کورٹ نے اعجاز الحق کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان حلفی کی بنیاد پر ان کی حد تک نظرثانی درخواست نمٹا دی، ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اپنے آج کے حکمنامے میں یہ بھی تحریر کیا کہ اعجاز الحق پر دھرنے کی حمایت کرنے سے متعلق رپورٹ ان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
عدالتی حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ اعجازالحق نے بیان حلفی دیا ہے جس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
چیئرمین پیمرا پر کیا گزری
آج کا دن چیئرمین پیمرا کے لیے بہت بھاری ثابت ہو گیا کیونکہ ان کا پہلے تو نام ہی مشکوک ہو گیا۔ چیئرمین پیمرا جنہیں زیادہ تر لوگ سلیم بیگ کے نام سے جانتے ہیں جبکہ ان کی سرکاری مہر پر ان کا نام محمد سلیم درج تھا۔
عدالت کی جانب سے وضاحت مانگنے پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ شناختی کارڈ میں ان کا نام محمد سلیم ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے اسٹینو سے کہاکہ جہاں جہاں سلیم بیگ لکھا ہے وہاں وہاں محمد سلیم لکھا جائے۔
آج صبح ساڑھے 10 بجے سماعت شروع ہوئی تو پیمرا کی جانب سے ان کے وکیل حافظ ایس اے رحمٰن عدالت میں پیش ہوئے۔ فیض آباد دھرنا کیس کے تناظر میں سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرا رکھا تھا جس میں انہوں نے الزام عائد تھا کہ 2017 کے فیض آباد دھرنے میں انتشار اور نفرت انگیز تقاریر کے تناظر میں جب انہوں نے کچھ نجی ٹی وی چینلز کی نشریات روکیں تو ان پر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے شدید دباؤ آیا اور پھر ان کے خلاف 3 درخواستیں ملک کی 3 ہائی کورٹس میں دائر کی گئیں جس کے نتیجے میں انہیں عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
ابصار عالم کا جواب پڑھا ہے، چیف جسٹس کا پیمرا کے وکیل سے استفسار
چیف جسٹس نے پیمرا کے وکیل حافظ ایس اے رحمٰن سے استفسار کیا کہ انہوں نے ابصار عالم کا جواب پڑھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، جس پر چیف جسٹس شدید برہم ہوئے اور آدھے گھنٹے کے لیے سماعت ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین پیمرا کو حاضر ہونے کا حکم جاری کیا۔
چیئرمین پیمرا جب عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پہلے تو ان کے وکیل کی بغیر تیاری سپریم کورٹ میں حاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا جس پر حافظ ایس اے رحمٰن نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا۔ اب اس کے بعد چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا سے کہا کہ ہم نے فیض آباد دھرنے کے تناظر میں آپ کو کچھ احکامات جاری کیے تھے، ان پر عملدرآمد کی بجائے آپ نے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کر دی، یہ درخواست دائر کرنے کے لیے آپ کو کس نے کہا۔
اس پر چیئرمین پیمرا نے کہا انہوں نے پیمرا ممبران کے اتفاقِ رائے سے یہ نظرثانی دائر کی تھی جبکہ چیف جسٹس کے استفسار پر چیئرمین پیمرا اس اتفاقِ رائے کا کوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہ کر سکے۔
چیف جسٹس نے پیمرا آرڈیننس سے پڑھ کر سنایا کہ پیمرا میں سارے فیصلے تحریری ہوں گے جبکہ چیئرمین پیمرا کے پاس ایسا کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی جانی چاہیے۔
اب چیف جسٹس نے پوچھنا شروع کیا کہ درخواست کس کے کہنے پر دائر کی گئی، کس نے ان پر درخواست دائر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ 5 گھنٹے کی سماعت میں چیف جسٹس نے متعدد بار چیئرمین پیمرا کے سامنے یہ سوال رکھا اور وہ گُم سم زمین کو دیکھتے رہے۔
ہم درخواست واپس لیتے ہیں، چیئرمین پیمرا کا بے بسی کا اظہار
چیئرمین پیمرا صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ ہم یہ درخواست واپس لیتے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کریں گے لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اندر ہمت نہیں کہ کسی کا نام لے سکیں۔ ابصار عالم کے اندر ہمت تھی انہوں نے تو نام لے لیے۔
چیئرمین پیمرا، پیمرا قوانین سے متعلق پوچھے گئے بعض دوسرے سوالات کے جواب دینے میں بھی ناکام رہے اور بار بار عدالت کے غضب کا نشانہ بنتے رہے۔ جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آیا پیمرا حکومت پاکستان کا ماتحت ادارہ ہے یا خود مختار۔ لیکن چیئرمین پیمرا اس سوال کا جواب دینے میں بھی ناکام رہے۔
حتٰی کے ساڑھے 4 بجے فیصلے کی آخری لائنیں تحریر کرواتے وقت بھی چیف جسٹس چیئرمین پیمرا سے پوچھ رہے تھے کہ آپ نے کس کے کہنے پر یہ نظرثانی درخواستیں دائر کیں اور وہ اسکول کے اس بچے کی طرح جس نے ٹیسٹ کی تیاری نہ کی ہو وہ چھٹی کے منتظر تھے۔