چاچا مجید ہمارا نگران تھا اور ہمیں اسکول سے لاتا لے جاتا تھا۔ اس کا تعلق پشاور شہر سے تھا۔ وہ پختون تھا اور گلابی سی ہندکو بولتا تھا اور اسی کو اردو سمجھتا تھا۔ ابا کو وہ شائد مانسہرہ میں ملا تھا۔ ان کی ٹرانسفر پشاور ہوئی تو استعفیٰ دیکر پشاور آ گیا۔ ابا مہمند ایجنسی ٹرانسفر ہوئے تو استعفیٰ دے کر مہمند چلا گیا۔ جب ابا واپس پشاور آئے تو اس نے پھر استعفی دیا اور پشاور آ گیا۔ تیسرے استعفیٰ کے بعد اس کو بحال کرانا مشکل تھا۔ سب نے اس سے پوچھا کہ بیلدار صاحب یہ کوئی مذاق ہے؟ چاچے نے نوکری پر لعنت بھیجی اور روز سویرے ہمارے گھر سائیکل پر پہنچ جاتا۔ ہمارا تانگہ چھڑوا دیا گیا، چاچا ہمیں سائیکل پر اسکول چھوڑنے لگ گیا اور اس طرح اس کی نوکری لگ گئی۔
نوازشریف نے جب ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ اور ’اسمبلی نہیں توڑوں گا‘ والی تقریر کی تو وہ چاچے مجید نے بھی سنی اور نوازشریف کو اپنا دل پکڑا دیا۔ چاچے کا ووٹ پی ایف ٹو میں تھا۔ پی پی کے سید قمر عباس اور مسلم لیگ ن کے آغا سید علی شاہ میں ایک زوردار معرکہ ہوا۔ سید قمر عباس نے یہ سیٹ 800 کے لگ بھگ ووٹوں سے جیت لی۔ چاچا مجید اپنی طرف سے سید قمر عباس کے ساتھ سخت مقابلے میں اترا ہوا تھا لیکن عین الیکشن والے دن چاچی دھوکہ دے گئی اور بیمار ہو گئی۔ چاچی نے ووٹ ڈالنے سے صاف انکار کر دیا۔
چاچے نے اپنی ایک بھتیجی بھانجی کو ساتھ لیا اور چاچی کا ووٹ ڈالنے چلا گیا اور جعلی ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی پکڑا گیا۔ پولنگ اسٹیشن پر ہنگامہ ہوگیا۔ اگلی کہانی چاچے کی زبانی یہ تھی کہ اس نے اتنا زبردست پولیس مقابلہ کیا کہ قمر عباس موقع پر پہنچ گیا۔ قمر عباس مرحوم نے چاچے کو دیکھا تو معاملہ سمجھ گئے۔ اس سے پوچھا کہ یہ جعلی ووٹ کیوں ڈال رہے تھے۔ چاچا بولا تم کو ہرانے واسطے، گھر والی پر بس نہیں چلا تو اس کو لے آیا۔ قمر عباس نے کہا یار ایسے نہیں کرتے۔ چاچے نے کہا ایسے ہی کرتے ہیں، نوازشریف اگر ایک ووٹ سے ہار گیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟ یہ سن کر قمر عباس نے کہا یار اس کو ووٹ ڈالنے دو۔ چاچا پھر اپنی بہادری اور کوشش کا یہ قصہ بڑے فخر سے سنایا کرتا تھا۔ اس قصے میں قمر عباس مرحوم کی معاملہ فہمی اور انسان دوستی غائب ہوتی تھی۔
مشرف دور میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تو ہمارے ایک دوست کے بھائی نے ناظم کی سیٹ پر الیکشن لڑا مگر ہار گئے۔ اس کے بعد وہ نائب تحصیل ناظم کی سیٹ پر کھڑے ہوئے اور جماعت اسلامی اور پی پی پی اتحاد کی وجہ سے جیت گئے۔ ان دونوں ہار جیت میں ارباب فیملی کے امیدواروں سے سامنا رہا۔ ارباب جہانگیر خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلی اور انتخابی سیاست میں ایک ناقابل شکست امیدوار رہے تھے۔ ہر بار پارٹی بدلتے اور جیت جاتے۔ جن فلیٹوں میں ہم رہتے تھے ان کے سامنے ہی ارباب فیملی کے گھر تھے۔ ارباب جہانگیر اپنے حلقے کے ہر فرد کے لیے مستقل دستیاب رہنے والے بہت نرم مزاج انسان تھے۔ الیکشن مہم میں ہم اپنے دوست کے ساتھ خجل ہوتے رہتے تھے۔
اکثر آتے جاتے ارباب صاحب سے بھی سامنا ہو جاتا۔ وہ روک لیتے اور پوچھتے کہ مہم کیسی جا رہی ہے۔ ناظم کے الیکشن کے وقت وہ کہتے کہ تم نے ہار جانا ہے۔ تحصیل ناظم کے الیکشن کے وقت وہ ہمارے دوست کو کہتے تم جیت رہے ہو، تمہاری فیملی کے پاس پیسہ بہت ہے، دیکھو الیکشن کو پیسے کی لڑائی نہ بنانا، یہ لڑائی نہیں ہے، ہار جیت چلتی رہتی ہے، الیکشن کا ایک دن ہوتا ہے، ہمارا تعلق نسلوں کا ہے۔ جب تحصیل ناظم کا الیکشن ہمارا دوست جیت گیا تو سب سے پہلے مبارک باد دینے آنے والے ارباب صاحب تھے۔
1988ء کی پی پی حکومت میں غلام احمد بلور وزیر ریلوے تھے۔ ہم کالج سے گھر جاتے ہوئے کینٹ ریلوے اسٹیشن کے سامنے سے گزرتے۔ ایک دن وہاں سے گزرے تو حاجی صاحب اسٹیشن کا دورہ کرنے آئے تھے۔ ریلوے یونین کے ورکرز انڈوں اور ٹماٹروں کے ساتھ حاجی صاحب کی گاڑی کے دوالے ہو گئے تھے۔ پولیس لاٹھی چارج کو تیار کھڑی تھی لیکن حاجی صاحب نے منع کر دیا۔ 20 سال بعد حاجی صاحب کا ایک انٹرویو کیا تو انہیں پوچھا کہ اس دن آپ نے پولیس کو روکا کیوں تھا، حاجی صاحب نے بتایا کہ 1970ء میں پی پی کے خلاف تحریک چلی تو میں، بشیر اور الیاس تینوں گرفتار ہوگئے، کاروبار خراب ہوگیا، ہمارے بچے دوستوں کے گھر شفٹ ہوگئے، بس سمجھو کے پرائے دسترخوان پر بیٹھ گئے تھے، اسٹیشن پر مجھے روکنے والے بھی بچے تھے، انہیں پولیس پکڑتی تو ان کا بھی یہی حال ہوتا مگرمیں نے نہیں ہونے دیا۔
2008ء کے انتخابات ہوئے تو ان کی مانیٹرنگ کے لیے بہت سی ٹیمیں پاکستان آئیں۔ ایسے ہی ایک آبزرور گروپ کے ساتھ بطور آبزرور الیکشن سے پہلے اور پولنگ کے دن بھاگ ڈور لگی رہی ۔ ایک آزاد امیدوار نے رابطہ کیا کہ ہمارے گاؤں کے پولنگ اسٹیشن پر خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا جا رہا۔ ہم وہاں گئے تو سناٹا تھا۔ آبزرور ٹیم کا ہیڈ ایک آسٹریلوی تھا جو ایک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی کے ایشا دفتر کا ہیڈ تھا۔ اس نے بھنگڑے ڈال دیے کہ لیڈیز کدھر ہیں۔ ساری پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے۔ سب نے اتفاق کیا ہوا تھا کہ خواتین ووٹ نہ ڈالیں۔ اندر پولنگ اسٹاف اور پارٹیوں کی پولنگ ایجنٹس بھی موجود تھیں۔ شکایت کرنے والا غائب تھا۔ گورے نے کہا کہ وہ اندر جا کر جائزہ لینا چاہتا ہے۔ وہاں موجود عوامی نیشنل پارٹی کا عہدیدار ہمارا اسکول فیلو تھا۔ اس نے کہا گورا اندر چلا جائے مگر یہ وسی نہیں جائے گا۔ گورے نے کہا یہ آبزرویشن ٹیم کے ساتھ ہے، یہ لازمی جائے گا ۔
خیر ہم اندر گئے تو اسکول فیلو کی اہلیہ نے ہی گورے کو بہت اچھے سے انگریزی میں سمجھایا کہ پارٹیوں کا فیصلہ ہے کہ ووٹ نہ ڈالا جائے، اس لیے خواتین کو لانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کر رہا اور نہ وہ خود آئیں گی، کوئی آ گئی تو ووٹ ڈال لے گی، ہم بیٹھے ہیں۔ گورا کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا۔ ہم جب باہر نکلے تو شکایت کرنے والا امیدوار بھی ایک قنات کے پیچھے سے نمودار ہوگیا۔ اس کی عزت افزائی کرنے کو ساری پارٹیوں والے ہی تیار لگتے تھے۔ امیدوار کا کہنا تھا کہ ویسے تو اس کی اپنی اماں بھی ووٹ ڈالنے کے لیے آنے کو تیار نہیں ہے لیکن بطور آبزرور اگر ہم کوشش کریں تو وہ الیکشن جیت جائے گا۔ اس کی یہ بات سن کر اسکول فیلو نے کہا، ’یخ شوے‘ یعنی ٹھنڈے ہوئے؟ گورا بھی کچھ سمجھ ہی گیا تھا۔
سکول فیلو البتہ دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر تم نے میری بیگم کا نام باقی دوستوں کو بتایا تو دیکھنا۔ کہہ بیچارہ ٹھیک ہی رہا تھا۔ ہمارے ایک دوست کی امی کا نام سدا بہار ہے۔ سب دوست اس کے ساتھ لڑائی شروع ہی ’ایورگرین‘ کے بچے کہہ کر کرتے ہیں۔