سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات سے متعلق کیس کا 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہوں گے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پورا ملک انتخابات کی تاریخ کے لیے تشویش میں مبتلا تھا، کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہوں گے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو۔
مزید پڑھیں
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کو تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی، آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت لیے گئے حلف کے پابند ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کو 50 سال ہوچکے ہیں، کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں۔ آج سے 15 سال پہلے 3 نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا، اور ایسا کرنے کے ہمیشہ دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ اس کے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ وقت آگیا ہے عدالتیں غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں کہ ان پر وقت ضائع ہو، ماضی قریب میں انہی صدر مملکت نے اسمبلی اس وقت تحلیل کی جب وزیراعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے، آئین واضح ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی۔ اسمبلی کی تحلیل سے تنازع سپریم کورٹ آیا اور عدالت کو اس کا فیصلہ کرنا پڑا۔
فیصلے کے مطابق صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیرآئینی اقدامات پر آرٹیکل 6 بھی لگ سکتا ہے، اور اس معاملے کو پارلیمنٹ پر چھوڑا تھا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ہر آئینی ادارہ آئین پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے، وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں، عوام کا حق ہے کہ انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا جس کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہوں گے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں کہ انتخابات کا عمل 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہو۔
فیصلے میں تحریر ہے کہ میڈیا آرٹیکل 19 کے تحت میڈیا کے رول کا اعتراف کرتی ہے، بعض اس آزادی کو عوام کو غلط معلومات دینا اور جھوٹا بیانیہ بنانے کا لائسنس سمجھتے ہیں، ایسا کرنا جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے۔
فیصلے میں تحریر ہے کہ پیمرا کا قانون ایسے مندرجات سے روکتا ہے جو لوگوں کو اکسائے اور حکومت کو آئین کے برخلاف ہٹایا جائے۔ پیمرا کا قانون جمہوریت کے فروغ کے لیے فیئر اظہار کی اجازت دیتا ہے۔
فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ میڈیا میں ان صحافیوں کو سراہتی ہے جو دیانتداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔
فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ جمہوریت پر اعتماد کی کمی سے عوام کی شمولیت کے ساتھ ساتھ ووٹر ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے، یورپین پارلیمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق غلط معلومات پھیلانے سے جمہوریت متاثر ہوتی ہے۔
’یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے سوچنے کی آزادی، پرائیویسی کے حق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور غلط معلومات سے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق خطرے میں پڑتے ہیں‘۔
تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ غلط معلومات سے نا صرف جمہوری اداروں پر عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے بلکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات پر بھی حرف آتا ہے۔ غلط معلومات کی وجہ سے ڈیجیٹل وائلنس اور جبر میں اضافہ ہوتا ہے۔