سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے’ اتحادی حکومت نے ہماری باتیں نہ مان کر ملک و قوم کا نقصان کیا۔ ہم نے پی ٹی آئی کو اس لیے نہیں ہٹایا کہ ہمیں حکومت کی ضرورت تھی۔ میں دیکھ رہاتھا کہ ان سے حکومت نہیں چل رہی ہے۔ 8 سال سے دیکھ رہا تھا کہ ان سے کچھ نہیں ہورہا تھا‘۔
انہوں نے کہا ’اتحادی حکومت نے ہماری باتیں نہ مان کر ملک و قوم کا نقصان کیا۔ ہم عوام کے حقوق اور ملک کی ترقی چاہتے ہیں۔ بھٹو کی قبر پر لکھا ہے کہ یہاں عوام کا نوکر دفن ہے۔ ہم نے ہمیشہ غریب عوام کی نوکری کی ہے۔ اسی میں ہماری جنت اور دوزخ ہے۔ ہمارے نہ سجدے کام آنے ہیں نہ ہی روزے کام آنے ہیں۔ اللہ قبول کرے گا تو غریبوں کی خدمت قبول کرے گا۔ ہم اس قدر دور اندیش ہیں کہ ہم ہر کام کرسکتے ہیں‘۔
’ ہم سمندر سے 5، 6 بلین ڈالر کما کر دے سکتے ہیں۔ ہم پورے پاکستان سے سمندر کی طرف آنے والے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنا سکتے ہیں۔ اس سے دادو اور ٹھٹھہ کی زمینوں کو بھی دینا ہے اور اس سے کھاد بھی بنانی ہے کیونکہ کھاد بہت مہنگی ہوگئی ہے‘۔
مزید پڑھیں
اصف زرداری نے کہا ’میں عملی طور پر سوچتا ہوں۔ میں نے پہلے بھی ایسا کیا، آج بھی عملی سوچ کا مظاہرہ کررہا ہوں۔ فلسطین کی بات کرنے والا دنیا کا سب سے پہلا لیڈر ہوں۔ آج بھی فلسطین کی بات کرتا ہوں۔ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے‘۔
’افسوس ہے کہ فلسطین کے لیے ہم اتنا کچھ نہیں کر رہے جتنا کرنا چاہیے۔ ہمیں افسوس ہے اور ہمارے دل میں درد ہے۔ مگر دل کے درد سے کام نہیں چلتا، ہمیں کچھ ہاتھ سے بھی مدد کرنا ہوگی۔ ہمیں کچھ آگے بڑھ کر بھی مدد کرنا ہوگی‘۔
انہوں نے کہا ’انشااللہ جب وقت آئے گا تو ہم مدد کریں گے۔ پہلے بھی بھٹو صاحب نے کیا تھا، اب بھی پیپلزپارٹی آئے گی تو کرے گی‘۔
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین نے کہا’ ہمارے مخالفین الیکشن کے لیے کھڑے ہوں، ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ جمہوریت ہوگی، ایک دوسرے سے مقابلہ ہوگا، تب ہی بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔ ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ ہر ایک کی اپنی سیاست ہے۔ سب اپنی سیاست کرتے ہیں، ہماری اپنی سیاست اور فلسفہ ہے۔ ہماری سیاست عوام کی سیاست ہے۔ ہماری سیاست شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست ہے۔ ہماری سیاست شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست ہے‘۔
انہوں نے کہا ’ہم نے بی بی شہید کو دفن کرکے بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا۔ اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی کیا قیمت ہے۔ اس دھرتی کی کیا قیمت ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ سرحد کے پار مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، ہمیں پتہ ہے کہ دنیا میں غریبوں اور مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، لیبیا اور شام میں کیا ہوا، ہم جب حکومت میں تھے تو شام اور لیبیا پر حملہ کی حمایت نہیں کی تھی‘۔
آصف زرداری نے کہا ’دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ تاریخ کے خلاف جا رہے ہیں، میں نے کہا کہ تاریخ میرے ساتھ افغانستان میں رہتی ہے، ہم نے 40 برس تک اس کی قیمت ادا کی ہے۔ ہمیں پتہ تھا کہ ہمارے پاس افغان بھائی آئے ہوئے تھے، ہم چاہتے تھے کہ وہ واپس جائیں لیکن وہ کیسے واپس جائیں۔ وہاں ہے کیا جسے حاصل کرنے کے لیے وہ بے چارے واپس جائیں‘۔
انہوں نے کہا ’جب لیڈروں میں سوچ چھوٹی ہوتی ہے تو بڑے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم نے اس سے آگے بڑھ کر دیکھنا ہے۔ ہم نے یہ سوچنا ہے کہ یہ جو میرے بچے ہیں، ان کے بچوں کے بچوں کا کیا ہوگا۔ ان کے لیے سوچنا اور سمجھنا ہے۔ ان کی ضروریات سمجھتے ہوئے وقت سے پہلے ان کا انتظام کرنا ہے‘۔
’ جب ہم حکومت میں تھے تو ہم نے بڑی کوشش کی لیکن دوستوں نے میری باتیں نہیں مانیں اور پاکستان کو نقصان ہوا۔ 5 سے 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ جس کے ہم متحمل نہیں تھے‘۔
انھوں نے کہا’ پاکستان اس وقت معاشی طور پر کمزور ہورہا ہے۔ ہم اس کے متحمل نہیں ہیں۔ ہم نے جب بھی بات کی ہے تو ملک کے فائدے کے لیے بات کی ہے۔ ہم اس دھرتی سے پیار ہے۔ پاکستان کو بنایا سندھ نے ہے تو بچانا بھی ہم نے ہے۔ ہم اس کو بچا کر رہیں گے انشااللہ۔ دنیا سے پاکستان کا حق لے کر رہیں گے اور عوام کی خدمت بھی کرتے رہیں گے‘۔
انھوں نے کہا ’اگر ہم نے صدر کے اختیارات کم کیے تھے تو اس کے پیچھے ایک سوچ تھی۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو کوئی بھی آ کر ڈکٹیٹر بن سکتا تھا لیکن اب کسی کو ڈکٹیٹر بننے کے لیے مارشل لا لگانا پڑے گا۔ لیکن آج کی صدی میں مارشل لا لگانا آسان نہیں ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا سے متعلق ہیں‘۔