جب کسی محفل میں گانے والا کسی بڑے فن کار کا کوئی گیت گانا شروع کر دے تو وہ دراصل خود کو ایک امتحان میں ڈال لیتا ہے۔ اگر گانے والا نبھا جائے تو عزت بچ جاتی ہے بصورت دیگر اس کی فنی کم زوریاں ہر کسی پر عیاں ہو جاتی ہیں۔ جون ایلیا پر لکھنا بھی ایسے ہی ہے۔
جون ایسا شاعر ہے جس کی اثر پذیری، مقبولیت اور رسائی ہر گزرتے دن کے ساتھ فزوں تر ہو رہی ہے۔ جون ایلیا کا اصل نام سید حسین جون اصغر تھا جب کہ قلمی نام جون ایلیا۔ جون امام حسین کے غلام کا نام تھا اور ایلیا حضرت علی کو کہتے ہیں۔
جون 14 دسمبر 1931 کو محلہ لکڑہ، امروہا، اُتر پردیش میں علامہ شفیق حسن ایلیا کے ہاں پیدا ہوئے۔ والدہ کا نام نرجس خاتون تھا۔ والد ایک ادبی شخصیت تھے۔ جون کے بڑے بھائی رئیس امروہی بھی معروف شاعر تھے اور سالہا سال اپنی ناگہانی وفات تک روزنامہ جنگ میں قطعہ لکھتے رہے۔
جون نے فارسی، اردو اور فلسفے میں ایم اے کر رکھا تھا، جب کہ عربی، فارسی، ہندی، انگریزی، پہلوی اور عبرانی پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ گھر کے ماحول کے حوالے سے خود لکھتے ہیں “جب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح شام تک شاعری، تاریخ، مذاہبِ عالم، علمِ ہیئت اور فلسفے کا دفتر کھلا دیکھا اور بحث مباحثے کا ہنگامہ گرم پایا۔”
اپنے پہلے شعر کی بابت تحریر کرتے ہیں
“میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا،
چاہ میں اس کی تمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سُرخی مرے رُخسار کی
جون 1957ء کو پاکستان آئے مگر خود کو امروہا میں چھوڑ آئے۔
1970ء میں معروف ادیبہ زاہدہ حنا سے محبت کی شادی کی دو بیٹیاں فینانہ، سحینا اور بیٹا سید زریون ایلیا پیدا ہوئے مگر شادی 80ء کی دہائی کے وسط میں طلاق پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس المیے نے جون اور جون کے خاندان پر نہایت برے اثرات مرتب کیے۔ دراصل جون نے اپنی ساری زندگی ہی نرالے ڈھب سے بتائی۔ شاعری کا پہلا مجموعہ “شاید” ساٹھ سال کی عمر میں شائع کروایا۔
کتاب کے دیباچے میں خود لکھتے ہیں
“یہ میرا پہلا مجموعہ کلام یا شاید پہلا اعترافِ شکست ہے جو انتیس، تیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رایگاں گیا۔ مجھے رائیگاں ہی جانا بھی چاہیے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت ہیں تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا”
جون ایک تہہ در تہہ شخصیت کے حامل تخلیق کار تھے۔ شاید وہ ایسے نہ ہوتے تو ویسے شاعر بھی نہ ہوتے جیسا کہ وہ ہیں۔
جون کی ذات اور شخصیت کو سمجھنے کے لیے، زاہدہ حنا، ان کی بیٹی فینانہ اور عطاء الحق قاسمی کی تحاریر بہت معاون ہیں۔
زاہدہ حنا لکھتی ہیں
“جون ایلیاء ایک ایسی سلطنتِ موہوم میں پیدا ہوئے جو 1857ء میں معدوم ہو چکی تھی۔ وہ ایک ایسی تہذیب کے بیٹے تھے جو اپنا عہدِ کمال تمام کر چُکی تھی اور جس کے چراغ اب دھواں دے رہے تھے.”
“ایک ایسے سماج میں جون ایلیا کی سائیکی نمو پذیر ہوئی جہاں وقت کی طنابیں کھنچی تھیں اور جہاں تقویم کا وقت تو بہ ہر طور گزر جاتا تھا لیکن تاریخ کا وقت ٹھٹھر گیا تھا”
“خوابوں کی اس سریت آمیز وادی میں جون ایلیا تموذ تھے۔ مادر سری عہد کے درمیانی اور عبوری دور کا مرد نمائندہ، بے عمل ہیرو، وہ مرد جو محبوبہ سے ماں کی سی محبت کا طالب ہوتا ہے.”
“دیکھا جائے تو سقراط سے سرمد اور حسین سے حلّاج تک ان کے جتنے بھی محبوب کردار ہیں۔ ان کرداروں کے دام میں گرفتار ہو کر جون ایلیا نے اپنی ذات میں ایک ایسے شخص کو تعمیر کیا جس کا مسئلہ اس کی اپنی کربلا کی تلاش تھی۔”
عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں
“جون کو پڑھا تو بہت ہوا تھا اور ان کی شاعری نے مجھے ان کا دیوانہ بنا رکھا تھا مگر جب ان سے ملنے کا موقع ملا تو پتا چلا کہ وہ صرف دوسروں کو دیوانہ نہیں بناتے بلکہ خود بھی دیوانے ہیں مگر کبھی کبھار بکار خویش ہشیار بھی نظر آتے تھے۔ منیر نیازی بتاتے تھے کہ جب وہ پہلی دفعہ جون کو ملے تو وہ “مجھے دیکھ کر اتنا خوش ہوا کے درخت پر چڑھ گیا”
قاسمی صاحب رقم طراز ہیں
“جون مجھے “الحق” کہہ کر پکارتے تھے۔ قطر کے ہوٹل میں اچانک انھوں نے مجھے مخاطب کیا اور کہا “الحق” مجھے سیر کراؤ، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں انھیں سیر کیسے کراؤں مگر میرے فیصلے سے پہلے وہ “پلاپی” مار کر میرے کاندھے پر سوار ہو گئے اور کہا “چلو”۔ میں انھیں کمرے سے باہر لے آیا اور دیر تک اِدھر اُدھر گھماتا رہا اور اس وقت کاندھے سے اُتارا جب وہ تھک گئے یا بور ہوگئے، میں نہ بور ہوا تھا اور اُن کے وزن سے تھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔”
“کراچی پہنچ کر بجائے اس کے کہ جون بھائی مجھے خدا حافظ کہتے، وہ میرے ساتھ ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ اس روز جون بالکل سنجیدہ موڈ میں تھے، انھوں نے مجھے اپنی عائلی زندگی کے بارے میں بتانا شروع کیا، مجھے علم تھا میری پسندیدہ افسانہ نگار اور کالم نگار خاتون سے ان کی شادی ہوئی اور تین بچوں کی ولادت کے بعد ان میں علیحدگی ہوگئی۔ وہ باتیں کرتے جاتے تھے، بچوں کے احوال بھی بیان کررہے تھے پھر اچانک انھوں نے رونا شروع کر دیا، حتیٰ کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پھر انھوں نے اپنا سر میرے کاندھے پر رکھ دیا۔ میری اپنی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں، میں اپنے محبوب شاعر کو اس عالم میں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا۔”
ان کی بیٹی فینانہ نے دو سال قبل ایک طویل مضمون میں جون کے بارے میں لکھا تھا
“ابو نہ تو خود امی کو قبول کر سکے اور نہ ان کے خاندان نے امی کو کبھی قبول کیا اس لئے کہ امی امروھہ کی نہیں تھیں، دونوں کا فرقہ بھی الگ تھا۔ ان باتوں کی وجہ سے امی ابو میں وہ فاصلے پیدا ہوگئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ ابو سے یہ بات ہضم کرنا بھی مشکل ہوتا چلا گیا کہ وقت کے ساتھ امی کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا وہ ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور ان سے ایسی سوچ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔”
“ادیب، مصور ہو یا موسیقار ہم فنون لطیفہ سے منسلک لوگوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی طرح کیسے زندگی گزار سکتا ہے وہ تو شاعر ہے مصور ہے تو اس سے ذمہ داری کا تقاضہ کیسے کیا جائے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گھر والے بھی ہیں اور گھر والوں کے لئے ان کا زندگی کے ہر قدم پہ موجود رہنا اور ساتھ دینا ضروری ہے۔”
“ابو سے زیادہ خوش قسمت انسان میں نے نہیں دیکھا قدرت نے انھیں سب دیا عزت، شہرت، مگر وہ خوش نہیں رہ سکے کیونکہ انھوں نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی۔ جو انسان محبت کرنے والے ماں باپ کا اور اولاد کا نہ ہو وہ اپنا بھی نہیں ہو پاتا۔”
“لوگوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جون ایلیا ان کے لئے ان کے پسندیدہ شاعر ہیں مگر میرے تو وہ باپ ہیں میں زندگی کو ان کے مصرعے میں تلاش نہیں کر سکتی تھی میری تو زندگی تھے وہ میرے، سحینا اور زریون کے تو باپ تھے وہ ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہئے تھا جو کہیں کھو گیا تھا۔”
“ابو سے جب میرا رشتہ ٹوٹ گیا تو میرے لئے سب کچھ بدل گیا میری پہچان بدل گئی اور ایسا ابو کی وجہ سے ہوا اس لئے میری ضد تھی کہ اب جو نام رکھا جائے گا وہ ابو ہی رکھیں گے۔”
“میں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا کیونکہ جب لوگوں کو معلوم ہوتا کہ میں کس کی بیٹی ہوں تو سرگوشیاں شروع ہو جاتیں اور جو کچھ سننا پڑتا اس سے تکلیف ہوتی۔ جب نویں کلاس میں امتحانی فارم آئے تو میں نے گھر جا کر کہا کہ میں اپنا نام تبدیل کرناچاہتی ہوں تب میرا نام فینانہ جون تھا امی بہت حیران ہوئی تھیں کہ میں کیوں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتی ہوں میں نے کہا تھا کہ مجھے ابو کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگانا میں اس وقت سولہ سال کی تھی اور یہ فیصلہ لینا میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا مگر میں جانتی تھی کہ وہ رشتہ جو دنیا میں مجھے سب سے پیارا تھا وہ میرے اور ابو کے زندہ ہوتے ہوئے بھی ختم ہوگیا ہے ابو میرے لیے اس دن مر گئے تھے۔”
ایک طرف یہ طرزِ فکر جب کہ دوسری طرف جون کے چاہنے والے ہیں اسماء سعادت انگریزی ادب کی استاد ہیں اور علمی ادبی گھرانے سے تعلق ہے وہ کہتی ہیں،
“جون ایلیا پر آپ مضمون لکھ رہے ہیں، بس دو باتیں کہنی تھیں،
ان کی کتاب “شاید” کا دیباچہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ وہ شاعروں کے شاعر تھے۔ مشکل انسان ہی نہیں بلکہ پیچیدہ شاعر بھی تھے۔ مختلف علوم فلسفہ، اردو، عربی، فارسی زبانوں پر عبور اس غضب کا تھا کہ وہ احساس برتری اور نرگسیت جو مشاعروں میں ان کی پہچان بن گئی تھی، وہ جائز تھی! سو فیصد جائز تھی!
دوسری بات، میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔
Suffering is within, not outside of us. Those of us who undergo bouts of suffering throughout our lives live next to people who do not feel or exhibit or undergo any suffering for the same situation. John Sahib did not face extraordinarily tragic circumstances, but because he presumably romanticized the idea of a tragic hero and saw himself as one, therefore he suffered. However, it was his innate tendency to suffer due to which he created eternal poetry depicting volumes of bitterness and disillusionment.
جون ایلیا کی چھوٹی بیٹی سحینا فاطمہ ویمن یونیورسٹی میں فنونِ لطیفہ کی استاد ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میری بڑی بہن اور چھوٹا بھائی زریون کراچی میں ہوتے ہیں۔ زریون آئی ٹی کے شُعبے کے متعلق ہیں۔ وہ بہت کم منظرِ عام پر آتے ہیں۔ مشاعروں میں آنے والے علی زریون ان کے بھائی نہیں۔ فینانہ بھی نجی شعبے میں مختلف نوعیت کے کام کرتی ہیں۔ سحینا کا کہنا تھا کہ بچپن میں ابو کی واسکٹ پہن لیتی تھی۔ والدین کے دفتر بھی جاتی تھی۔ میری شکل بھی والد سے ملتی ہے۔ اس زمانے میں یہ فخر محسوس کرتی تھی کی کہ میں ایک مشہور شاعر کی بیٹی ہوں لیکن اب یہ میرے لیے اہم بات نہیں۔ میرے والد بڑے شاعر تھے۔ میں ان کی شاعری پڑھتی ہوں اور مجھے ان کی شاعری پسند بھی ہے لیکن میرے لیے وہ شاعر نہیں تھے میرے تو وہ والد تھے اور یہ کردار یا ذمہ داری انھوں نے نہیں نبھائی۔ والدین کا کام صرف کھانا کھلانا اور اچھی زندگی دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ بچوں کو پیار، اپنائیت، توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ وقت گزر چکا لوگ جو مرضی کہیں یا جیسے چاہیں سمجھیں مجھے نہ اس بات پر رونا آتا ہے نہ تکلیف ہوتی ہے نہ خوشی ہوتی ہے۔ میں جو ہوں وہ ہوں۔ مجھے کوئی شوق نہیں کہ مجھے کوئی کسی حوالے سے جانے۔
میرے والد نہایت خوش نصیب اور نہایت بد نصیب بھی تھے۔ وہ اپنے آپ سے مطمئن نہیں تھے۔ اپنی، جلن، کُڑھن سے انھوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا اور اپنے سے متعلق دوسروں کو، سب کو بھی تکلیف دی۔
میری ماں کو میرے خاندان نے نہیں اپنایا۔ میرے والد کہتے تھے میں نے زاہدہ کے ساتھ بچوں کو بھی طلاق دی ہے۔ ہم بچے آج جو کچھ بھی ہیں اپنی والدہ اور اپنے ننھیال کی تربیت کی وجہ سے ہیں۔
ماہرِ نفسیات سومیہ بلال سے جب جون کی ہشت پہلو شخصیت کے حوالے سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ جون ذات کا شاعر تھا اور اپنی ذات میں ہی گُم ہوگیا۔ یقیناً یہ نرگسی رویہ ہے۔ نرگسیت کے منفی اور مثبت دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ اس رویے میں توازن نہ ہو تو وہ وبال بن جاتا ہے۔
ہر تخلیق کار کسی حد تک نرگس رویوں کا حامل ہوتا ہے اور شاید یہ تخلیق کا لازمہ بھی ہے کہ اس کے بنا تخلیق کار تخلیقی عدم اعتماد کا شکار ہی رہتا ہے مگر حد سے بڑھی ہوئی نرگسیت بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
بہرحال جون اگر ان کیفیات کا شکار نہ ہوتے تو شاید پھر وہ جون بھی نہ بن پاتے۔ آج ان کے درجنوں شعر ضرب المثل بن چُکے ہیں۔ بظاہر سیدھی بات بھی گہرائی کی حامل ہوتی ہے۔ ان کی نثر مشکل مگر انتہائی جان دار اور رواں ہوتی ہے جب کہ شاعری میں ان کا اپنا لہجہ اور اسلوب ہے جو دوسروں سے ان کو ممیّز و ممتاز کرتا ہے۔ ذاتی تلخیوں، محرومیوں کے باوجود جون ایلیاء آج کے عہد کے بڑے شاعر ہیں۔
تھی کسی شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا