سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی اور تحریری حکمنامہ جاری کر دیا اور سماعت 22 جنوری تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں ہوگا کہ اوپر سے حکم آیا تو نظر ثانی دائر کر دی، سچ سب کو پتا ہے لیکن بولتا کوئی نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت ملتوی کرنے سے پہلے حکم نامہ لکھوایا جس کے میں لکھا گیا کہ اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پیش کیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی او آرز میں شامل کیا جائے گا کہ نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا حادثہ تھا یا کسی کی ہدایت پر کی گئیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹی او آرز ایک ہفتے میں شامل کر لیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب کیس 2 ماہ بعد سنیں گے اور کسی کو استثنیٰ نہیں ہے سب کو کمیشن بلا سکتا ہے۔
’کمیشن ابصار عالم کے نام لیے گئے افراد کو بھی بلانے کا اختیار رکھتا ہے۔‘
سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے، عدالت کے نوٹس پر شیخ رشید احمد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی نظر ثانی درخواست واپس لینے پر خارج کر دی۔
مزید پڑھیں
چیف جسسٹس نے شیخ رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست آخر دائر ہی کیوں کی تھی؟ 4 سال تک اس کیس کو لٹکائے رکھا۔ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی اس لیے درخواست دائر کر دی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہیں ہو گا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی، سچ سب کو پتہ ہے بولتا کوئی نہیں کوئی ہمت نہیں کرتا۔
شیخ رشید کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج کل تو سچ بولنا اور ہمت کرنا کچھ زیادہ ہی مشکل ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آج کل کی بات نہ کریں ہم اس وقت کی بات کر رہے ہیں، یہ معاملہ مذاق نہیں ہے پورے ملک کو آپ نے سر پر نچا دیا ہے، یہ کوئی مذاق نہیں جب چاہے درخواست دائر کی جب دل کیا واپس لے لی۔ نظر ثانی درخواستیں اتنا عرصہ کیو مقرر نہیں ہوئی یہ سوال ہم پر بھی اٹھتا ہے۔
چیف جسٹس نے خود کو بھی احتساب کے قابل قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کو اس وقت کوئی عدالت سے باہر کی قوتیں کنٹرول کر رہی تھیں، سب سے پہلے ہم خود قابل احتساب ہیں، نظرثانی کی درخواست آجاتی ہے پھر کئی سال تک لگتی ہی نہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ فیصلے پر عمل نہیں کیا جارہا، کیونکہ نظرثانی زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اب بھی یہ سچ نہیں بولیں گے کہ کس نے نظرثانی کا کہا تھا، جس پر شیخ رشید نے جواب دیا کہ نظر ثانی درخواست دائر کرنے کے لیے مجھے کسی نے نہیں کہا تھا۔
عدالت نے کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن کہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کر دیا اور اٹارنی جنرل نے کمیشن کے ٹی او آرز بھی عدالت میں پڑھ کر سنائے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو ایم این اے اور وزیر رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں نا، جب جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں نا، کہیں نا کہ ہاں میں نے حمایت کی تھی۔ چیف جسٹس نے شیخ رشید کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر ملک کی خدمت کریں گے؟ جس پر شیخ رشید اٹھے اور روسٹرم کی جانب چلنے لگے تو چیف جسٹس نے شیخ رشید کو روسٹرم پر آکر بولنے سے روک دیا، اور کہا کہ آپ سے نہیں پوچھ رہے آپ کے وکیل سے پوچھ رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید ایک سینئر پارلیمنٹرین ہیں، آپ کے حوالے سے عدالت نے کچھ نہیں کہا۔ ہر ادارے کو اپنا کام خود کرنا چاہے، ہم سے وہ کام نہ کروائیں جو کھبی 184 کی شق کے اختیار کا استعمال کر کے ماضی میں ہوتا رہا۔
شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ آج کل تو عدالتوں کا یہی حال ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل نہیں، یہ مارچ 2018 کی بات ہورہی ہے، فیصلوں سے پہلے بھی فیصلے ہوتے ہیں؟،جو یہ سمجھا جاتا ہے عدالتیں کنٹرول ہورہی تھیں، یہ کیس اس کی سب سے بڑی مثال ہے، معلوم سب کو ہے کہ کون سب کچھ کررہا تھا لیکن نام لینے کی ہمت کسی میں نہیں، ملک کی دنیا میں جگ ہنسائی کا سامان بنادیا گیا، ملک کا دشمن کوئی بیرونی نہیں، ملک کے اندرسب خود ہی دشمن ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا گیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اس کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حاضر سروس بارے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس کی سروس متاثر ہوسکتی ہے۔
سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے تحریری حکمنامہ لکھوایا اور سماعت 22 جنوری تک ملتوی کر دی۔ اٹارنی جنرل نے 20 جنوری کے بعد سماعت رکھنے کی استدعا کی تھی۔